دامن پر شراب کی بوتل

Online Shopping

Online Shopping

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں مسلم طلبا اور طالبات کے لیے باترجمہ قران پڑھنے کو لازمی قرار دے رہے ہیں آج ہماری مشکلات کی وجہ قران مجید کو ترجمے کے ساتھ نہ پڑھنا ہے عمران خان کی حکومت کا ایک اور احسن اقدام اللہ اس پر عمل کرنے کی طاقت دے رمضان شروع ہو چکا ہے میں آج کسی کی دھلائی کر کے اپنے سر گناہ لینا نہیں چاہتی جیسا کہ آپنے میرے کالم کا عنوان پڑھا ہے اسی موضوع پر لکھنا چاہتی ہوں دیکھیے یہ تو طے شدہ بات ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں میڈیا جس طرف آپ کو لے جانا چاہے لے جا سکتا ہے یہ بہت بڑا ہتھیار ہے راہ پر لانے اور گمراہ کرنے کو اسی طرح رواج پانے والی بدعتیں یا فیشن بھی تب تک ممکن نہیں جب تک معاشرہ ایک جان ہو کر اس کے خلاف قدم نہ اٹھائے ،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اس نے اپنا چینل پاکستان میں کھول کر ہمارا سب کچھ تباہ کر دیا جی ہاں جب ذہنی غلامی اس حد تک بڑھ جائے کہ منبر پر بیٹھے علما اور کلیدی عہدوں پر بیٹھے آفیسرز، یونیورسٹیوں میں تعلیم دینے والے معززپروفیسرز،اساتذہ کرام بھی ایک میڈیا ہائوس کے مالک کے لیے باہر نکل آئیں وہ مالک جو خود کہتا ہے میں تو بزنس کرتا ہوں یعنی اس کا اس قوم کی روحانی یا ذہنی پسماندگی سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف بزنس کرتا ہے یعنی وہ مال بیچتا ہے جو اس کو نفع دے نہ کہ قوم کو اب ایک بزنس مین پینتیس سال ملک کا سربراہ ،ایک بزنس مین پچیس سال قوم کے ذہنوں پر حکمران رہا ہو تو نتیجہ یہی نکلنا تھا جو اس قوم کے مقدر میں لکھا گیا اب زیرو سے سٹارٹ کرنا ہے۔

مجھے یاد ہے مردوں کے لیے رنگ برنگے کرتے بنائے گئے جن میں ہرا ،اودا ،پیلا ،جامنی ،لال نیلا ،فروزی ،گلابی ،لیکن کسی پاکستانی مرد نے نہ پہنے جب وہ یہاں نہ بکے تو بھارت میں غالبا ممبئی کی سڑکوں پر مفت بانٹے گئے تب تک ہمارے ہاں کچھ شرم باقی تھی اس چینل سے نئے نئے گل کھلے اور اس قوم کی آنکھین کھلتی گئیں بلکہ دیدے پھٹتے گئے ،ادارے بے توقیر ہوتے گئے علماء کی ہنسی اڑائی گئی وہ جو ایک دبکے پر سہم جانے والے لوگ تھے خم ٹھونک کر سامنے آ گئے سفید ریش بزرگوں کی ایسی ایسی وڈیوز سامنے آنے لگیں کہ گھروں سے بزرگوں کا احترام ہی ختم ہو گیا لوگ اتنے کھلے ہو گئے کہ سب اکھٹے بیٹھ کر دیکھنے لگے ”چولی کے پیچھے کیا ہے ”۔

چولیوں پر مور ناچنے لگے طوطوں کے پنجرے چھپنے لگے اب عورتیں فرمائش کرتیں بھائی وہ کپڑا دکھانا جس پر مور ناچ رہا ہے اب کہتی ہیں بھائی وہ بندے دکھانا جو کانوں پر سانپ کی طرح بل کھائے ہوتے ہیں بیڈ شیٹس پر باربی ڈول اور اور ایشوریا رائے کی تصویریں چھپنے لگیں جن پر منڈے سو کر رنگین خواب دیکھتے چلو یہاں تک بھی خیر تھی برانڈڈ کپڑوں پر تو عجیب ہی سچویشن ہے آپ ایک لان کا تھری پیس آٹھ سے دس ہزار میں لیتے ہو چونکہ آجکل ایک نیا رواج چلا ہے جس کو آن لائن شاپنگ کہتے ہیں تین سال پہلے میں اسلام آباد ایک بڑے شاپنگ مال میں گئی کیٹلاگ بک سے ایک جوڑا پسند کیا انہوں نے کہا پری بکنگ کرا لیں اور ساڑھے سات ہزار جمع کروا دیں دو ہفتے بعد جوڑا آپکے ایڈریس پر پہنچ جائے گا میں نے سوچا کون انتظار کرے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اسی قیمت میں جوڑا لیا اور گھر آ گئی اب میری آنکھیں خراب تھیں یا دماغ کہ میں نے پورا کھلوا کر نہ دیکھا گھر جب کئی دنوں بعد کھولا تو اس پر کلیسا بنا ہوا بڑی مشکل سے اسے کاٹ پیٹ کر درزی نے چھوٹی سی شرٹ بنا دی کہ باجی اتنا بڑا کپڑا تو کٹ گیا کیا کروں تب سے میں ذرا محتاط ہو گئی ،میں کبھی سیل لگنے پر نہیں جاتی کیونکہ سیل پر جو حالات عورتوں کے ہوتے ہیں اللہ رحم کرے جس کے ہاتھ جو لگتا ہے۔

ایسے اٹھا کر بھاگ رہی ہوتی ہیں جیسے مفت بٹ رہے ہوں اور دکاندار توبہ توبہ کر رہے ہوتے ہیں اس سے آن لائن شاپنگ پھر بھی تھوڑی باعزت لگتی ہے لیکن جب رواج ہی ایسے الٹے سیدھے نکل آئیں تو بندہ کیا کرے ایک مشہور برانڈ سے بڑی دیکھ بھال کر شرٹس منگوائیں اور یہ تو سب جانتے ہیں پیکٹ بعد میں ہاتھ آتا ہے پے منٹ پہلے دینی پڑتی ہے ،سب کاموں سے فراغت پا کر رات کو بڑے شوق سے پیکٹ کھولا تو کیا دیکھتی ہوں قمیض کے دامن پر شراب کی بوتلیں گری پڑی ہیں ۔جی ہاں باقائدہ شراب کی بوتلیں بنی ہوئی جن سے شراب بہہ رہی ہے وہ بھی دامن پر ایک دو نہیں پورے دامن پر پرنٹ یہی ہے اب کیا ہو سکتا ہے ایک بار پھر دھوکا ۔۔۔۔۔ اللہ معاف کرے کام ہمارے ایسے ہیں مسلمانوں والا کوئی کام اب ہم نہیں کرتے لیکن غیرت اتنی ہے کہ مولانا نے دعا میں یہ کہہ دیا کہ اللہ ہمیں معاف کر دے ہم بہت برے ہیں تو سارے میں آگ لگ گئی حالانکہ اللہ سے مانگتے وقت رونا افضل ہے کہتے ہیں رونا نہ آئے تو رونے والی شکل بنا لو کہ عاجزی اللہ کو پسند ہے۔

رمضان کے مہینے میں کمائی کرنے والے سخت بے چین اور ناراض ہیں کہ یہی ایک مہینہ کمائی کا ہوتا تھا وہ بھی لاک ڈائون کی نظر ہو گیا جبکہ لاک تو کہیں نظر نہیں آتا صرف ڈائون ہی ڈائون ،شٹر ڈائون کر کے سارے کام جاری ہیں اب اس میں حکومت کیا کر سکتی ہے کہ پولیس والے شٹر ڈائون کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر دو ہزار بھتہ وصول کر لیتے ہیں
کاش کہ ہم ایک قوم ہوتے کورونا جیسی وبا کو آزمائش سمجھ کر اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتے دھونس ،دھاندلی ،فراڈ ،جھوٹ ،زخیرہ اندوزی ، سود ،رشوت ،چھوڑ دیتے دیکھا جائے تو اللہ نے ہمیں سنبھلنے کا موقع دیا ہے اس کو غنیمت سمجھیں اللہ کو راضی کرنے والے کام کر لیں لیکن ہم تو اور زیادہ بگڑ گئے!

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی