لاک ڈاؤن: طلب میں کمی مارکیٹ میں غیر یقینی بڑھا رہی ہے

Rupee

Rupee

لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) طلب میں تیزی سے ہوتی کمی کاروباروں کے لیے زر کے بہاؤ پر گہرا اثر ڈال رہی ہے اور مارکیٹ میں غیریقینی بڑھا رہی ہے۔

اگر کسی معیشت میں مجموعی طلب ملکی پیداوار سے بڑھ جائے تو پھر اس کا عکس اضافی طلب یا تو بیرونی جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کی صورت میں نظر آتا ہے جہاں یہ طلب پوری کرنے کیلیے درآمدات کرنی پڑتی ہیں یا پھر اس کی وجہ سے افراط زر کا دباؤ بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں بلند قیمتیں یا بلند شرح سود اضافی طلب کا خاتمہ کردیتے ہیں۔

مجموعی ملکی طلب کے دو جزو ہوتے ہیں: نجی شعبے کی طلب اور حکومتی شعبے کے اخراجات۔ بڑھی ہوئی ملکی طلب میں ہر شعبے کا کردار اس شعبے میں بینکاری نظام سے حاصل کردہ قرض سے ظاہر ہوتا ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران نجی شعبے کے حاصل کردہ قرضے بینکوں سے لیے گئے مجموعی قرض کا 20 فیصد ہیں۔ اس طرح ملکی طلب میں اضافے میں مرکزی کردار سرکاری بجٹ خسارہ اور اسے پورا کرنے کے لیے بینکوں سے لیے گئے قرضے ہیں۔

کورونا کی موجودہ صورتحال میں نجی شعبہ مزید قرض لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوگا کیونکہ غیریقینی معاشی ماحول میں نئی سرمایہ کاری کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لاک ڈاؤن اور کورونا کے خوف سے صارفین کی طلب میں بھی کمی آئی ہے۔ کووڈ 19 کی صورتحال میں مہنگائی بڑھنے کا محدود امکان ہے۔

طلب میں تیزی سے ہوتی کمی کاروباروں کے لیے زر کے بہاؤ پر گہرا اثر ڈال رہی ہے اور مارکیٹ میں غیریقینی بڑھا رہی ہے۔ اس صورتحال میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ بڑی اور جامع ہنگامی قرضہ اسکیموں کا اجرا کرے۔ حکومتی ریلیف پروگراموں کے فروغ کے لیے اسے زیادہ روپیہ چھاپنا چاہیے۔