نسل انسانی کو کرونا وبا کے باعث پنی بقا کے لئے ایک طویل جدوجہد کا سامنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس وقت اپنی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ ساتھ، مستقبل میں اپنے فواید کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ تاہم اس وقت جہاں بنی نوع انسان کو کرونا وبا سے چیلنجز کا سامنا ہے، اُس میں سب سے زیادہ تشویش ناک صورتحال مہاجر کیمپوں، حراستی مراکرز اور بے گھر رہنے والے غریب اور معذور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وبا سے سماجی اور اقتصادیات کے اثرات سے لاکھوں بچے بھی براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کرناوبا کو ’بچوں کے حقوق کا ایک بڑا بحران بتاتے ہوئے کہا کہ جھگی بستیوں، پناہ گزین اور مہاجر کیمپوں، حراستی مراکز اور جدوجہد کرنے والے علاقوں میں رہنے والے اور معذور بچے وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس وقت دنیا کے200ممالک میں وائرس اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ موجود ہے اور واحد حل کے طور پر لاک ڈاؤن کرنے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ یہاں افسوس ناک پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے کروڑوں بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے، 190سے زائد ممالک میں تعلیمی ادارے بند کئے جاچکے ہیں، جس سے تقریباً 1.5 ارب بچے متاثر ہوئے ہیں، کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا رسک لینے پر کوئی حکومت بھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔
اس کے ساتھ عالمی معیشت میں کساد بازاری کے خدشات کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے غذائی قلت میں کمی سے بچوں کی نشوونما متاثر ہوگی، دنیا بھر میں اسکول کے کھانے (مڈ ڈے میل) پر منحصر 31 کروڑ بچوں کو روزانہ کی خوراک نہیں مل سکے گی۔ غذائی قلت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بچوں کی شرح اموات میں اضافے کے بھی خدثات ظاہر کئے جا رہے ہیں، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بچوں کو معتدی بیماریوں سے بچانے کے لئے ویکسن پروگرام بھی متاثر ہوئے ہیں، کرونا وبا کی وجہ سے کئی ممالک میں ویکسنیشن پروگرام منجمد ہوگئے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیریس نے رپورٹ جاری کئے جانے کے آغاز میں ایک ویڈیو بیان میں بچوں کے حقوق، احترام اور مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے فوری طور پر اقدامات کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ”میں ہر جگہ کے خاندانوں اور سبھی سطحوں کے لیڈروں سے ہمارے بچوں کی حفاظت کرنے کی اپیل کرتا ہوں“۔مسٹر گٹیریس نے جلد از جلد ویکسینیشن پروگراموں کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ”ہم بچوں کو بیماری کی زد میں آنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتے۔ جیسے ہی ویکسینیشن پروگرام دوبارہ شروع ہو، ہر ضرورت مند بچے کو ٹیکے لگائے جانے چاہئیں“۔
یہاں سب سے اہم مسئلہ گھریلو تشدد کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے، کرونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث اہل خانہ گھروں میں مقید ہوگئے ہیں، جس کے سبب فرسٹریشن و گھریلو عدم برداشت کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جس کے براہ راست اثرات سے بچے متاثر ہو رہے ہیں، گھریلو لڑائی جھگڑوں و مباحث سے بچوں کی ذہنی کیفیت میں نمایاں اتار چھڑاؤ دیکھنے میں آرہا ہے، بالخصوص یورپی ممالک و امریکا میں تشویش ناک حد تک ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، جنوبی و مشرقی ایشائی ممالک میں خاندانی نظام کی وجہ سے یورپ جیسی صورتحال تو نہیں ہے لیکن انہیں غربت کا بدترین سامنا ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ نسل انسانی کی تمام اقدار و روایات میں تبدیلی آرہی ہے۔ نوجوان طبقہ اس موذی وبا سے بچاؤ کے لئے قوت مدافعت کا سہارا لے کر کسی نہ کسی طور پر سامنا کررہا ہے، لیکن بچے اور پچاس برس سے زاید العمر افراد کو وائرس کے زیادہ نقصانات میں ان کی تنہائی و معاشرتی دوری نے بھیانک خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
چونکہ مغرب و مشرقی اقدار میں نمایاں فرق ہے، اس لئے اولڈ ایج ہوم میں زائدالعمر بزرگ افراد کرونا وبا کا بدترین شکار بن رہے ہیں، دوسری جانب تعلیمی تعطیلات میں بچوں کے والدین کی اکثریت موسم بہار کی وجہ سے سیاحت کے لئے پروگرام ترتیب دیا کرتے تھے، لیکن کرونا نے امسال سیاحت پر کڑی ضرب لگائی ہے۔ اس موقع پر والدین کی جانب سے بچوں میں کرونا وبا کے نقصانات سے آگاہی کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت اہم اَمر ہے، لیکن بڑھتی بے روزگاریوں اور لاک داؤن کی طوالت نے انہیں خود ڈپریشن و فرسٹریشن کا شکار کردیا ہے، جس کی وجہ سے وہ بچوں کو کرونا وبا سے بچاؤ کے لئے محتاط شعور دینے میں ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ یہ ایک ایسا معاشرتی المیہ ہے، جس پر عالمی بیداری کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کرونا وبا سے سب سے زیادہ خوف زدہ طبقہ مہاجرین کا ہے، جنہوں نے خانہ جنگیوں اور اپنے ملک میں جنگوں کی وجہ سے گھروں کو چھوڑ کر آئی ڈی پیز بنے یا پھر محفوظ رہنے کے لئے اپنے اہل خانہ کے ساتھ تکالیف اٹھاتے ہوئے دوسرے ممالک میں مہاجرین کی صورت میں ہجرت کی۔ جہاں پہلے ہی انہیں خوراک سمیت بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا تھا، مختلف وبائی امراض کی وجہ سے ان کی زندگیوں کی حفاظت کی ذمے داری پناہ دینے والے ممالک مناسب طور پر سرانجام دینے میں سست روئی کا مظاہرہ کرتے، کیونکہ مہاجرین بغیر اجازت ان کے ممالک میں پُر خطر راستوں کے ذریعے داخل ہوجاتے، لاکھوں بچے تعلیم سے محروم رہنے کی وجہ سے اک تاریک مستقبل کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، اسی طرح خانہ جنگیوں میں متحارب گروپوں نے مخالفین کے اہل خانہ کو حراستی مراکز میں انتہائی کمپسری کی حالت میں رکھا ہوا ہے، اب کرونا وبا سے ان کی دیکھ بھال کرنا، ایک بڑا انسانی بحران ہے، جس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی۔امریکی کانگریس کی مسلم رکن ایلہان عمر نے کرونا وبا پھیلنے سے قبل انکشاف کیا تھا کہ امریکا میں ایک کروڑ دس لاکھ بچے بھوک مری کا شکار ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کے بہت سے طلبا بھی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بھوکے رہ جاتے ہیں، ملک کی مختلف ریاستوں میں بھوک و افلاس کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں نے ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے اپنے گھر فروخت کئے۔
ٹالسٹائی نے صدیوں پہلے کہا تھا کہ غربت کی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات ہوتی ہیں ورنہ ہر بے روزگار شخص جائز طریقے سے اپنے جینے کا بندوبست کر سکتا ہے۔ لیکن مراعات زدہ معاشرے میں انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ بے روزگاری بڑھے اور مل مالکان کو سستے مزدور دستیاب ہوں۔ غربت اس وقت پوری دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ غربت کو بڑھانے میں جنگوں نے افسوس ناک کردار ادا کیا ہے، انسانوں کو غریب بنانے میں جنگوں کا نمایاں کردار رہا ہے، جنگ جس بھی وجہ سے ہو اس میں انسانی جان جاتی ہے۔ ایک مُلک،قبیلے یا علاقے کا سارا مال و دولت دوسرے علاقوں میں چلا جاتا ہے یوں وہ لوگ غربت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ جس سے ان کی اولاد اور وہ خود بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہوجاتے ہیں۔بے شک انسان ابھی تک قدرتی آفات پر قابو نہیں پا سکا جس کی وجہ سے اس کو بہت سا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
قدرتی آفات میں سونامی،قحط،زلززلے،سیلاب وغیرہ شامل ہیں۔ قدرتی آفات کی وجہ سے انسانوں کے گھر ٹوٹ جاتے ہیں،ان کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے یوں قدرتی آفات نے انسانوں کی غربت میں اہم کردار ادا کیا۔ دولت کو تقسیم کرنے کا اصول ہمیشہ غیر منصفانہ رہا ہے، دراصل انسانوں کو ابھی تک کوئی اچھا معاشی نظام نہیں مل سکا جس پر وہ سب متفق ہو اور چل سکیں۔قرآن کا دیا نظام معاشیات نسل انسانی کے لئے رہنما اصول پر مبنی ہے، لیکن معیشت پر یہودی پالیسیوں نے اپنی گرفت اس طرح مضبوط کی ہوئی ہے کہ ایک بھی مسلم اکثریتی ملک ان کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ اگر کوئی اچھا نظام ہو تو بہت سارے طبقے اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ سود کی وجہ سے انسانوں کا ایک گروہ امیر سے امیر ہوتا جاتا ہے جبکہ دوسرا گروہ غریب سے غریب ہوتا چلا جاتا ہے۔کرونا وبا کی تباہ کاریوں میں نسل انسانی کے مستقبل معصوم بچوں پر پڑنے والے اثرات کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کا مستقبل نوجوان نسل و بچے ہی ہوتے ہیں۔ اگر ان کی حالت اس قدر پس ماندہ و گردگوں کردی جائے تو انسانوں کو غلام بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا، کرونا وبا سے ایک وقت کے بعد نجات مل جائے گی لیکن اس کے اثرات سے کروڑوں بچوں پر جو منفی رجحانات پیدا ہونگے، اس کا مدوا کرنا، کوشش کے باوجود بھی ناممکنات میں داخل ہونے کے شدید خطرات ہیں۔ اس لئے بچوں کو مستقبل میں کارآمد بنانے کے لئے ان کے مسائل کو ترجیحات میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔