اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں

Allah

Allah

تحریر : پروفیسر مظہر

آجکل پوری دنیا ایک ایسی اَن دیکھی وبا کی زد میں ہے جو گھروں میں گھُسی بیٹھی ہے۔ ”کورونا” نامی اِس وائرس کے خوف سے اپنے بیگانے ہوئے جاتے ہیں۔ جسے دیکھو وہ دوسرے سے ایسے بدکتا ہے جیسے کورونا اُسی کا نام ہو۔ چہار جانب مایوسی اور خوف کی تہیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ اقوامِ عالم کی میڈیکل لیبارٹریز مقدور بھر اِس وائرس کا مقابلہ کرنے کی تگ ودَو میں ہیں۔ یقیناََ میڈیکل سائنس اِس وائرس کی دوا بھی ڈھونڈ ہی لے گی لیکن ہمیں دوا کے ساتھ دُعا کی بھی ضرورت ہے۔ یہ وقتِ دعا صرف اہلِ اسلام ہی نہیں، اہلِ کتاب اور ہر ایسے شخص کے لیے ضروری جو کسی نہ کسی حوالے سے اللہ پر یقین رکھتا ہے (جدید ترین تحقیق کے مطابق اِس وقت دنیا میں رَب کو ماننے والوں کی تعداد 84 فیصد اور نہ ماننے والوں کی 16 فیصدہے)۔

قُرآنِ مجیدمیں وضاحت کر دی گئی کہ ”تم پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو سب باتوں سے درگزر فرماتا ہے” (الشوریٰ ٣٠)۔سورة توبہ ١٢٦ میں یوں ارشاد ہوا ”کیا اِن کو دکھائی نہیں دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے ہیں، پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی نصیحت قبول کرتے ہیں”۔ فرقانِ حمید کی اِن آیاتِ مبارکہ کے مطابق یہ آزمائش کی گھڑی ہے جسے دعاؤں سے ٹالنے کی سعی کی جا سکتی ہے کیونکہ آزمائش پر صبر کرنے والے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے اور جو مایوس ہو جاتے ہیں وہ شیطان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ کورونا بھی آزمائش ہی ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دوا کے ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہے۔

ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ روزِازل جب ابلیس”نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرنے سے انکار کیا تب ”رَب نے پوچھا ”اے ابلیس ! تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا”۔ اُس نے کہا ” میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اُس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ”۔ رَب نے فرمایا ”اچھا، تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تُو مردود ہے، اب روزِ جزاتک تم پر لعنت ہے”۔ اُس نے کہا ”میرے رَب! یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کی مہلت دے جب کہ انسان دوبارہ اُٹھائے جائیں گے”۔ فرمایا ”اچھا، تجھے مہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے”۔ وہ بولا ”میرے رَب! جیسا کہ تو نے مجھے بہکایا ہے ، اِسی طرح اب میں زمین میں اُن کے لیے دِ ل فریبیاں پیدا کرکے اُنہیں بہکاؤں گا، سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے اُن میں سے خالص کر لیا ہو”۔ فرمایا ”یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔ بیشک جو میرے حقیقی بندے ہیں اُن پر تیرا بَس نہ چلے گا۔ تیرا بَس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں پر ہی چلے گا جو تیری پیروی کریں، اُن سب کے لیے جہنم کی وعید ہے” (الحجر ٣١ تا ٤٣)۔ سورة النساء میں یوں ارشاد ہوا ”(ابلیس نے کہا) میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا، میں اُنہیں بہکاؤں گا، میں اُنہیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا، میں اُنہیں حکم دوںگا اور وہ میرے حکم پر جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور وہ میرے حکم پر خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے۔ جس نے اُس شیطان کو اللہ کی بجائے اپنا ولی اور سرپرست بنا لیا، وہ صریحاََ نقصان میں پڑ گیا” (النساء ١١٩)۔ر حمٰن اور شیطان کے مابین اِس مکالمے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گی۔

جب اللہ عز وجل نے ابلیس کو بنی آدم کو بھٹکانے کی اجازت دی تو ضروری تھا کہ ابلیس کو راہِ حق پر چلنے والوں کو بھٹکانے کی کھلی چھوٹ دی جائے۔ ربِ علیم وخبیر نے انسان کے اندر خیر اور شر کی صلاحیتیں رکھیں، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو مفصل سمجھایا، حق کی روشنی اُس کے سامنے رکھی اور پھر اُس کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ اِس آزمائش میں حق کے راستے کا انتخاب کرتا ہے یا باطل کے راستے کا۔اللہ نے حق وباطل کے لیے جو قانون بنایا اُس کے مطابق یہ بھی ضروری تھا کہ حق پرستوں کو ایک طویل مدت تک آزمائشی بھٹی میں ڈالا جائے، وہ توکل علی اللہ کا امتحان دیں اور مصائب ومشکلات میں صبر کا دامن تھامے رکھیں یہاں تک کہ رب کی نصرت آن پہنچے۔ گویا آزادی اور اختیار ہی دراصل انسان کی آزمائش ہے اور اِسی کٹھالی میں تَپ کر راہِ حق پر چلنے والا کندن بن کر نکلتا ہے۔یہی اختیار اور آزادی کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیتی ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ”پھر کیا تم لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا۔ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اُس کے ساتھی اہلِ ایماں چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟۔ اُس وقت اُنہیں تسلی دی گئی کہ اللہ کی مدد قریب ہے” (البقرہ ٢١٣، ٢١٤)۔ سورة ال عمران میں یوں ارشاد ہوا ”مسلمانوں! تمہیں جان اور مال دونوں کی آزمائشیں آتی رہیں گی، تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر اور خُدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے”۔

رَبِ لم یزل کی حکمت سیدھی راہ دکھانا ہے، ہاتھ پکڑ کر سیدھی راہ پہ چلانا نہیں۔ کہہ دیا گیا ”اللہ اگر چاہتا تو اِن سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا” (ال انعام ٣٥)۔ اِسی سورة مبارکہ میں حضورِ اکرم ۖ کو بتا دیا گیا کہ آپ ۖ کا کام حق کا پیغام پہنچانا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، اُس کی مرضی۔ ارشاد ہوا ”تمہیں ہم نے اِن پر پاسبان مقرر نہیں کیا” (ال انعام ١٠٧)۔ ظاہر ہے کہ اگر اللہ عزوجل سیدھی راہ پر چلانے کا کلی اختیار اپنے پاس رکھ لیتے اور ابلیس کو بہکانے کی اجازت نہ دیتے تو پھر تخلیقِ کائینات کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔ اِسی لیے قرآنِ مجید میں جگہ جگہ آزمائش کا ذکر ہوا۔ سورة البقر میںآزمائش کا ذکریوں کیا گیا ”ہم ضرور تمہیں خوف وخطر ، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے نقصان میں مبتلاء کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے” اُنہیں خوشخبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رَب کی بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ فگن ہوگی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں” (البقرہ ٥٥ا تا ١٥٧)۔ سورة الانفال آیت ٢٨ میں ارشاد ہوا ”تم یہ جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک امتحان کی چیز ہیں۔ اِس بات کو بھی جان لو کہ اللہ تعالےٰ کے ہاں بڑا اجر ہے”۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالےٰ نے جہاں آزمائش کا ذکر کیا ہے وہاں آزمائش پر پورا اترنے والوں کے لیے اجر کا وعدہ بھی کیا۔

اگر کوئی کسی آزمائش میں گرفتار ہوتا ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُسے سزا دی جا رہی ہے بلکہ یہ تو کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنے کا پیمانہ ہے۔ انبیاء اور رسول معصوم عن الخطا اور اللہ کے انتہائی مقرب بندے ہوتے ہیں لیکن اُنہیں بھی آزمائشوں کی پُرخار وادی سے گزرنا پڑا تاکہ لوگوں کو سمجھایا جا سکے کہ یہ آزمائش ہے سزا نہیں۔ حضرت آدم علیہ سلام سے لے کر رحمت اللعالمین حضرت محمد ۖ تک ہر نبی اور ہر رسول پر آزمائشیں آتی رہیں۔ حضورِ اکرم ۖ کی مکّی زندگی مصائب سے پُر تھی۔ طائف کے شرپسندوں کی آپ ۖ پر سنگ باری کسے بھول سکتی ہے۔ شعبِ ابی طالب سے لے کر غارِ ثور تک کی تاریخ ہر مسلمان کو اَزبر۔ اللہ تعالیٰ نے آپۖ کو تین بیٹے عطا کیے اور وہ تینوں اپنے بچپن میںفوت ہوئے۔ حضرت ایوب سے مال ودولت اور اولاد، سب کچھ چھین لیا گیا، سوائے بیوی کے سبھی عزیز رشتہ دار ساتھ چھوڑ گئے۔ حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈالا گیا۔ جد الانبیاء حضرت ابراہیم سے عزیزترین بیٹے کی قربانی مانگی گئی، حضرت یعقوب کو اپنے لاڈلے بیٹے حضرت یوسف کی جدائی کے غم میں مبتلاء کیا گیا۔ اِس سے صاف ظاہر کہ اللہ کے مقرب ترین بندوں پر آزمائشیں بھی کڑی آتی ہیں۔

ایک دفعہ ایک صحابی نے حضورِ اکرم ۖ سے سوال کیا کہ سب سے زیادہ آزمائش کس پر آتی ہے ؟۔ آپ ۖ نے فرمایا ” سب سے زیادہ انبیاء اور اُس کے بعد صالحین پر”۔ اگر اِن مقرب ترین بندوں کو آزمائش کی کٹھالی میں ڈالا گیا تو پھر کوئی فاتر العقل ہی ہو گا کہ جو یہ سمجھے کہ اُسے اُس کے ظرف کے مطابق آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا۔ ارشادِ ربی ہے ”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اُن کے صرف اِس دعوے پر کہ ”ہم ایمان لائے ہیں” ہم اُنہیں آزمائے بغیر ہی چھوڑ دیں گے؟۔ اُن سے پہلے آنے والوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا تھا۔ یقیناََ اللہ اُنہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور اُنہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں(سورة العنکبوت)۔ اِس لیے آزمائشوں پر صبر کرنا ہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ اگر کسی کو مال یا اولاد کے دُکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اُسے صبر کا دامن چھوڑے بغیر بارگاہِ ربی میں دعا کرنی چاہیے۔ یہ وہی وقت ہوتا ہے جب ابلیس انسان کو بہکانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن وہ اللہ کے بندے جنہوں نے اپنی منزل متعین کر رکھی ہوتی ہے، اُنہیں نہیں بہکا سکتا۔ ہوسِ دنیا میں گرفتار ذاتی خواہشوں کی جوان جھلمل کے اسیر جان لیں کہ

بس ایک منزل ہے بو الہوس کی ، ہزار رستے ہیں اہلِ دِل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اُس میں ، گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

آخر میں معروف نوجوان مزاح نگار ناصر محمود ملک کا شکریہ، جس کے روزنامہ نئی بات میں 23 اپریل کو لکھے گئے خوبصورت کالم نے مجھے تحریک دی کہ میں بھی اپنی تمامتر کج بیانی کے باوجود اِس موضوع پر خامہ فرسائی کروں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر