کورونا وائرس کی وباء کے مابعد اثرات

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : سید عارف سعید بخاری

کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچاکر رکھ دی ہے۔ اس کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ موت کی وادی میں اتر چکے ہیں ،متعدد متاثرین زیر علاج ہیں جبکہ پاکستان میں اب تک تقریباً تین سو لوگ مر چکے ہیں ،اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان 300 میں نے بھی 60فیصد مرنے والے لوگ کورونا کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی دوسری بیماری سے وفات پا گئے ۔دنیا کے بہت سے ماہرین اس وباء کو عالمی مافیا کی ایک بڑی سازش قرار دے رہے ہیں ، یہ دجالی فتنہ پوری دنیا کو اپنی معاشی غلامی میں دینے کیلئے طویل المدتی منصوبے کو وسعت دے رہا ہے ۔۔اور بد قسمتی سے اس سازش میں بعض ممالک کے ذمہ داران خاص طور سے میڈیا بھی برابر کا شریک ہے ۔ کورونا کی وباء کی آڑ میں پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن کے ذریعے لوگوں کو ایک نا ختم ہونے والے عذاب میں مبتلا کر دیا گیا ہے ۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر شخص خوف کے سائے تلے جی رہا ہے۔اور حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔

اس وباء کے حوالے سے ماہرین ابھی تک تحقیق میں الجھے ہیںاور ابھی تک کوئی حفاظتی دوا نہیں تیار کرسکے،دنیا بھر میں لوگوں کو ”سوشل ڈسٹینس”یعنی انسانوں کے مابین کم سے کم تین فٹ کا فاصلہ رکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ حفاظتی اقدام کے بارے آگاہی مہم کے سوا فی الحال حکومت کے پاس کوئی اور آپشن نہیں کہ لوگ کسی طرح سے اپنے معمولات زندگی کو رواں دواں رکھ سکیں ۔لاک ڈاؤن میں کمی کی بجائے اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے ، اس کیفیت کی وجہ سے گھروں میں قید رہنے کی بناء پر بچے پوڑھے اور جوان حتی ٰ کہ خواتین بھی ذہنی مریض بنتی جا رہی ہیں ۔ یہ مرض کب تک دنیا کی جان چھوڑے گا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ مگراس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ یہ وباء ختم بھی ہو گئی تو اپنے پیچھے متعدد خوفناک اور اذیت ناک یادیں اور جلدی اورذہنی بیماریاں چھوڑ کرجائے گی ۔جن کا ہر دوسرا فرد شکار ہو گا۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے کورونا وائرس کی بدولت خوف اور دہشت کی جو فضا پیدا کی گئی ہے ۔اس کیفیت سے مستقبل قریب میں لوگوں میں سنگین ذہنی عوارض کے پیدا ہونے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں ۔جن میں آبسیسو کمپیلسیوڈس آرڈر (OCD)،تھینیٹو فوبیا(Thanato phobia)،اینگزائٹی/ گھبراہٹ،دماغی اور جلدی امراض شامل ہیں ۔اس عارضے میں انسان لاشعوری طور پر بے تحاشا کوئی کام کرتا ہے ،اور کوئی ایک عادت ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے ،ڈرامے دیکھنے کا جنون جبکہ بھوک کی بھی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی ،بے حد جھوٹ بولنا اوربے وجہ بولنا اور بارباربات کو دہرائے جانے کا تکلیف دہ عمل بھی شامل ہوتا ہے ،اس مرض میںانسانی ذہن میں بار بارتکلیف دہ خیالات آسکتے ہیں جبکہ مریض ایک ہی کام کو بار بار کرنے کی خواہش کرتا ہے ،چونکہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر میں ہاتھ دھونا اور بار بار ہاتھ دھوناشامل ہے اس تناظر میں یہ عادت بن سکتی ہے اور اکثریت اس ذہنی بیماری کی کیفیت میں مبتلا ہوسکتی ہے ۔دل و دماغ میں ایک وہم سا پیدا ہو سکتا کہ میرے ہاتھ گندے ہوگئے بار بار ہاتھوں کو دھونا، پانی کا گلاس صاف نہیں۔ بیٹھنے کی جگہ صاف نہیں۔ ایسے کاموں کو کرنے کے لیے مریض خود کو بے بس پاتا ہے ۔

۔ آو۔سی۔ڈی کا شکار افراد عام طور پر ذہنی لحاظ سے بالکل صحیح ہوتے ہیں لیکن اس بیماری کا اظہار کرتے ہچکچکاتے ہیں کہ لوگ انہیں پاگل نہ سمجھیں اور یہ عموماً بیس یا بائیس برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کروایا جائے تو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن جیسے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔یہ مرض عموماً موروثی، ذہنی دباؤ، زندگی میں اچانک تبدیلیوں، ذہنی تبدیلی اور شخصیت میں بدلاؤ کے نتیجے میں لاحق ہوتا ہے۔اس مرض کا اپنی مدد آپ کے تحت علاج ممکن ہے۔ صورتحال سنگین ہونے کی صورت میں کاگنٹییو تھراپی ایک نفسیاتی علاج ہے جس سے پیچیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ادویات اور ای۔آر۔پی سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔

ایک اور بیماری موت کا خوف یا تھینٹوفوبیا (Thonatophobia) اینگزائٹی یا اضطراب کی ایسی شکل کا نام ہے جس میں انسان خود اپنی یا اپنے کسی پیارے کی موت سے خوف زدہ ہونے لگتا ہے۔ یہ بذات خود پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسے کہ ذہنی دباؤ، ڈپریشن یا اینگزائٹی۔ اس صورت میں فرد انتہائی اضطراب اور ڈر کا شکار ہوتا ہے جس میں کسی اپنے سے جدائی، کھو دینے کا ڈر اور اپنے پیاروں کو چھوڑ دینے کا ڈر غالب ہوتا ہے۔ جب موت کا یہ خوف انسانی ذہن پر اس قدر حاوی ہوجائے کہ روزمرہ زندگی کے معاملات اس سے متاثر ہونے لگیں تو ایسے میں خبردار ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات نے لوگوں کو بے حد خوف زدہ کررکھاہے،اور امکان یہ ہے کہ لوگوں میں Fear of death جیسی ذہنی کیفیات سنگین روپ دھار سکتی ہیں۔اس سے بلواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہ افراد اور ان کے قریبی عزیزبھی جو وباء کا شکار ہوئے ان میں” تھینٹوفوبیا ”پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ ماہرین کے مطابق نوجوان افراد اس کا وسیع شکار ہوتے ہیں جبکہ مردوں کی نسبت خواتین تھینٹوفوبیا سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جس سے مزید نفسیاتی مسائل جیسے کہ فوبیا کی دوسری اقسام، پینک ڈس آڈریا اینگزائٹی بھی جنم لے سکتے ہیں۔موت کے خوف میں مبتلا افراد کے لئے” ٹاک تھراپی ”بہت کارگر ثابت ہوتی ہے جس میں اپنے معالج کو اپنے خوف اور اس سے جڑی جزویات کے حوالے سے آگاہ کرنا نفسیاتی طور پر راحت بخش ثابت ہوتا ہے اینگزائٹی/ گھبراہٹ کا عارضہ بھی اس کی وجہ سے لاحق ہوسکتا ہے ۔گھبراہٹ کی ذہنی و جسمانی علامات کی وجہ سے لوگ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاید انہیں کوئی شدید جسمانی بیماری ہوگئی ہے جس سے اس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہر فرد انفرادی و اجتماعی سطح پر گھبراہٹ کا شکار ہے جوکہ فطری امر ہے مگر بعض ماہرین کے خیال میں یہ گھبراہٹ مستقل ان کے رویے کا حصہ بن سکتی ہے۔ عمومی طور پر تو گھبراہٹ کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں وہ گھبراہٹ ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض اوقات وہ حالات اتنے خوفناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ ان سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ طویل شکل اختیار کرجاتی ہے اور وہ ان واقعات کے زیر اثر رہتے ہیں۔بلاشبہ اس وقت پوری دنیا کورونا کے خوف میں مبتلا ہے۔ نجانے کب یہ خطرناک وائرس ختم ہوگا لیکن اس دوران جو ذہنی کیفیات خصوصاً گھبراہٹ اور بے چینی ہے وہ ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑیں گی اور امکان یہ ہے کہ لوگ وباء کا زور تھم جانے کے بعد بھی خوف اور گھبراہٹ کا شکار رہیں گے کہ کہیں انہیں کورونا وائرس نہ ہوجائے۔گھرون میں رہنے سے لوگ خود کو قیدی تصور کرنے لگے ہیں مگراسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔

وبا ء کی موجودہ صورت حال خوفزدہ کردینے والی کیفیت ہے، مگر اس سے نبردآزماہونے کے لیے سب سے اہم اور بڑا نفسیاتی ہتھیار مذہب سے لگاؤہی ہے ، دین اسلام نے خوراک سمیت رہن سہن کے تمام طریقے بیان کئے ہیں جن پر عمل کرکے ہم کورنا سمیت ہر بیماری سے نجات پا سکتے ہیںحتیٰ کہ ” ڈیٹھ اینگزائٹی ”سے نکل سکتے ہیں۔ مثبت انداز اپناکر ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں ۔

ایک اور اہم بات جو توجہ طلب ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے آج کل ہر دوسرا بندہ ”سینیٹائیزر” استعمال کر رہا ہے، لیکن ہم اس کے استعمال سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ نہیں ہیں ، امراضِ جلد کے ڈاکٹرز اور ماہرین نے عوام کو وقتاً فوقتاً خبردار کیا ہے کہ سینیٹائیزر کا مسلسل اور زیادہ استعمال سانس اور جلدی امراض میں مبتلا کرسکتا ہے۔یوں تو دو طرح کا سینٹائیزر بازاروں میں دستیاب ہے ، ایک وہ جو ہسپتالوں میں دوران آپریشن ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف استعمال کرتا ہے دوسرا ڈیٹول ،ایلویرا جل اور پانی ملا کر بنایا جانے والا محلول بھی لوگوں کے زیر استعمال ہے ،بازراوں میںموجود غیر معیاری اور مناسب فارمولے کے بغیر تیار سینیٹائزر کا استعمال انسانی صحت کیلئے بہت مضر ہیں۔کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے عوام پانی اور ڈیٹول صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس پراحتیاطی تدابیر اختیار کریں ،سماجی فاصلوں کو یقینی بنائیں ،میل جول میں کمی سے بھی اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔گھروں میں مقید رہتے ہوئے ہم اپنے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کوجلا بخش سکتے ہیں۔

Syed Arif Saeed Bukhari

Syed Arif Saeed Bukhari

تحریر : سید عارف سعید بخاری