رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے رمضان المبارک کی رونقیں بھی پھیکی پڑی ہوئی ہیں ، رب کریم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس کرونا وائرس سے نجات دلائے تا کہ پوری دنیا میں زندگی کی رونقیں بحال ہو سکیں ، کرونا کی وجہ سے لاک ڈاءون لگا ہوا ہے اور اس لاک ڈاءون سے جہاں دیہاڑی دار مزدور پریشان تھے اب وہیں اس لاک ڈاءون سے تاجر برادری سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شدید پریشان ہیں ، جب کہ کئی موقعوں پر یہ بھی سننے کو ملا کہ کرونا کی بجائے لوگ اب بھوک سے مر رہے ہیں ، اس لیئے لاک ڈاءون میں نرمی پید اکی جائے ، سندھ حکومت مسلسل لاک ڈاءون کے حق میں ہے اور اس ہی حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کسی مقام پر یہ الفاظ کہے کہ لوگ بھوک سے نہیں مرتے، جس پر اپوزیشن سمیت بہت سارے سیاسی رہنماءوں نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا، اب اگر دیکھا جائے تو لوگ بھوک سے مر بھی جاتے ہیں۔
کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں ہی ہم آئے روز ٹی وی اور اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ غذائی قلت کی وجہ سے بچے ہلاک ہوگئے ہیں ، لیکن وہاں بھی اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو کھانے اور غذا کی قلت انسانوں کی ہی پیدا کردہ ہوتی ہے جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں ، بہر حال ان ہلاکتوں کے حوالے سے بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، لیکن ایک حد تک وزیراعلیٰ سندھ کے بات سے اتفاق ضرور کرونگا کہ لوگ بھوک سے نہیں مریں گے لیکن اگر احتیاط نہ کی گئی تو کرونا وائرس کے پھیلاءو اور بے احتیاطی سے ضرور موت کے منہ میں جاسکتے ہیں ، اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور ابھی تک کرونا وائرس کی ویکیسن کے حوالے سے بھی حکومتی سطح پر ابھی تک ایسی کوئی خبر سننے میں نہیں ملی، کرونا وائرس سے بے احتیاطی کا نقصان ان تمام ممالک نے اٹھایا جنہوں نے اس کو سنجید گی سے نہیں لیا۔
پاکستان میں بھی لوگ سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کر رہے ہیں ، لاک ڈاءون پر سختی سے عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک ماہ کے لاک ڈاءون سے وہ نتاءج نہیں حاصل کرسکے جس کی توقعات کی جارہی تھیں لیکن اس لاک ڈاءون کی وجہ سے کاروبار بند ہوجانے کیوجہ سے لوگ مالی پریشانی کا شکار ضرور ہوگئے ہیں اور اب اس پریشانی کو ختم کرنے کے لیئے لوگ لاک ڈاءون میں نرمی کا تقاضا اور مطالبہ کر رہے ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کرونا وائرس کا ہمارے ملک میں کوئی علاج نہیں ہے سوائے احتیاط کے لیکن بھو ک کا علاج کیا جاسکتا ہے، بھوکوں کو کھانا کھلا کر ، راشن پہنچا کر ، جلدی یا دیر سے لیکن یہ ممکن ہے ، پورے صوبے میں یا پورے پاکستان میں ہر شخص کو تو حکومتی امداد کی ضرورت نہیں ہے، حکومت کو صرف ان لوگوں کو امداد ، راشن یا کھانا پہنچانا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی اگر کسی صوبے کی آبادی سات کروڑ ہے تو دوکروڑ کے لگ بھگ لوگوں کو کسی بھی ہنگامی صورتحال یا لاک ڈاءون جیسی صورتحال میں حکومتی امداد کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت فراہم کرنا ہوگی جو کہ میرے خیال میں اتنا مشکل کام نہیں ہے ، اگر الیکشن کے دنوں میں گھر گھر ووٹ ڈالنے والی پرچی پہنچ سکتی ہے، اور ووٹوں کے حصول کے لیئے ہر ووٹر کے گھر پر ووٹوں کے حساب سے پولنگ اسٹیشن تک لیکر جانے اور لیکر آنے کے لیئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہوسکتا ہے تو کسی بھی گھمبیر صورتحال میں غریب اور مستحق لوگوں کے گھروں میں کھانا اور راشن بیگز بھی پہنچائے جا سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی مالی امداد بھی بآسانی کی جاسکتی ہے کیونکہ پورا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے، اس سلسلے میں پولیوہیلتھ ورکرز کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ، بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی پولیو ہیلتھ ورکرز کے پاس ایک ایک گھر کے افراد کا ڈیٹا موجود ہے، کیا اس ڈیٹا کی مدد سے لوگوں کے گھر پر راشن پہنچا کر یا پکا ہوا کھانا پہنچا کر ان کی بھوک کا حل نہیں نکالا جا سکتا، روزانہ کی بنیادوں پر اخباروں اور ٹی وی پر خبریں چل رہی ہوتی ہیں کہ وفاقی حکومت نے اتنے لوگوں کی مدد کی، صوبائی حکومت نے بے شمار لوگوں کو راشن بیگز پہنچائے جبکہ ملک کی تما م ہی بڑی اور چھوٹی این جی اوزسمیت دیگر فلاحی ادارے بھی لاکھوں لوگوں تک راشن پہنچانے کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر لوگ بھوک سے مر رہے ہیں تو یہ بھوک نہیں ہے یہ بد نیتی ہے، ہوس ہے، لالچ ہے ، اس کو بھو ک نہیں کہتے، رز ق کا وعدہ تو رب کریم نے خاص طور پر اپنی مخلوق سے کیا ہے پھر کیسے کوئی بھوک سے مر سکتا ہے، جب تک ہمارے اند ر کی ہوس اور لالچ نہیں مرے گی تب تک ہماری مشکلات بھی کم نہیں ہونگی، یہ وقت قوم بننے کا ہے جیسے ہی ہم قوم بن جائیں گے تو قدرت بھی ہماری مدد کریگی اور کوئی بھی بھوک سے نہیں مریگے ۔ ختم شد