تقریباً 73 سالوں کے بعد پاکستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل پائی ہے جس کا بنیادی منشور ہی کرپشن سے پاک معاشرہ اور انصاف ہے۔ عمران خان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔سخت گیرمزاج کے مالک عمران خان اگر چاہتے تو وہ کرکٹ کے بعد آئی سی سی کے ساتھ منسلک ہو کر یا کمنٹری کر کے بھی اتنے پیسے کما سکتے تھے کہ جس سے وہ اپنی بقیہ زندگی عیش و آرام سے گزار سکتے تھے۔ لیکن اپنی والدہ کی کینسرکے ہاتھوں وفات کے بعد ان کی زندگی میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور انکی توجہ پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول ہوئی۔ انہوں نے ملک میںکینسر کا ہسپتال” شوکت خانم میموریل ہاسپٹل”قائم کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک سے پائی پائی اکٹھی کرکے ایک ہسپتال قائم کر دیکھایا جس سے آج کینسر کے مریض مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی ٹیلنٹ کی صلاحیتوں کو اْجاگر کرنے کے لیے”نمل انسٹیوٹ ” قائم کیا جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کو انٹرنیشنل ڈگری عطا کی جاتی ہے۔غرض عمران خان کے ملک و ملت کی خاطر اْٹھائے گئے اقدامات کی فہرست طویل ہے جس کی دْنیا معترف ہے۔
چوبیس برس قبل سیاست میں آنے او ر تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے کا مقصد اس ملک سے کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار، استحقاقی نظام ، غربت و افلاس کا خاتمہ، یکساں نظام تعلیم اور صحت کی سہولیات کی یکساں فراہمی تھا۔ بائیس سال کی جدوجہد اور مافیا ز کے ساتھ ٹکرانے کے بعد دوسال قبل ایک مالی طور پر کمزور حکومت چلانے کا نظم و نسق ورثے میں ملا۔ عمران خان نے ملکی و غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبی حکومت سنبھالتے ہی اسے درست راستے پر ڈالنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ بدقسمتی سے پہلے ہی سال 10 ارب ڈالر کے قرضوں کی واپسی کرنا پڑی جس سے ملکی خزانے پر اتنا بوجھ پڑا کہ ملک دیوالیہ ہو نے کے قریب آن پہنچا تھا۔ عمران خان نے سعودی عرب، یواے ای ، قطر، چین اور آئی ایم ایف سے امداد اور قرض حاصل کرکے ملک کو ایک بارپھر ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔حکومتی اخراجات میں کمی کی مثالیں قائم کی گئیں۔ وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہاوس کے بجائے بنی گالہ کو ہی وزیر اعظم کی رہائش قرار دیا ۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کرپٹ مافیا کے خلاف سخت اقدامات اور آرڈیننس جاری کیے تاکہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکے۔
حکومت میں شامل منتخب پذیروں کی وجہ سے آئے روز ایسے ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی آٹے اور چینی کا بحران جنم لیتا ہے تو کبھی ٹماٹروں کا ، کبھی چینی سبسڈی کا بحران اْٹھتا ہے تو کبھی رمضان میں مصنوعی مہنگائی کا،یوںمحسوس ہوتا ہے کہ حکومتی صفوں میں موجود کچھ وزراء حکومت کی کار کردگی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوںمیں ہیں۔ عمران خان نے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر کہا تھا کہ وہ کسی ایم این اے اور ایم پی اے کو فنڈ ز جاری نہیں کرینگے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان وزراء نے بھی ٹھان رکھا تھا کہ وہ حکومت کی ناک کے نیچے ہی اپنے کھیسے (جیب) ضروربھریں گے اور اس کے عملی مظاہر ے دیکھنے کو بھی مل رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور خسرو بخیتارکے شوگر سبسڈی انکوائری میں نام آرہے ہیں اور نیب میں بھی کئی وزراء کے کیسز چل رہے ہیں۔
ملک کروناء وائرس کی دنیا بھر میںتباہ کاریوں کی وجہ سے حالت جنگ میں ہے۔ ملک بھر میں کروناء کی روک تھام کے سلسلے میں وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے رابطے کرکے ان کی ضروریات کو پورا کر رہی ہے۔این ڈی ایم اے درکار ضروری سامان چائینہ سے منگوا کر ملک بھر میں ضروت کے مطابق تقسیم کر رہا ہے،رضا کار فورس کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔ایسے میں کچھ وزراء حکومتی اقدامات کو درست انداز میں اْجاگر نہیں کررہے تھے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات فرودس عاشق اعوان نے بطور معاون خصوصی اختیارات کا ناجائز استعمال اور کرپشن کی اور وزیر اعظم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹراعوان کے حوالے سے وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کی گئی تھی جس کے بعد انہیں عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بطور معاون خصوصی اختیارات کا ناجائز استعمال اور کرپشن کی۔ انہوں نے میڈیا کو جاری کیے جانے والے حکومتی اشہتارات سے 10 فیصد کمیشن لینے کی کوشش کی۔یہی نہیںبلکہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے سرکاری ٹی وی کے کوٹے پر ضرورت سے زائد ملازم رکھے، انہوں نے بغیر اجازت 2 سکیورٹی گارڈز سمیت 9 ملازم رکھے ہوئے تھے، انہوں نے 2 گاڑیاں بھی لے رکھی تھیں جس کی انہیں اجازت نہیں تھی، اس کے علاوہ بھی الزامات کی ایک لمبی فہرست ہے جس کی تحقیات ہونا باقی ہے۔
وزارت اطلاعات کے درست انداز میں کام کرنے،حکومتی اقدامات اور کوششوں کو موثر انداز میں پیش نہ کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومتی ٹیم میں ایک بار پھر تبدیلی لاتے ہوئے اپنی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی جگہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور ابلاغی حکمت عملیوں کے ماہر لیفٹینٹ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ کو تعینات کر دیا ہے، جبکہ مشہور ادیب احمد فراز کے فرزند سینیٹر شبلی فراز کو وزیر اطلاعات کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔وزیراعظم کے اس فیصلے پر ملک بھر سے عوام نے ملے جلے ردعمل کا مظاہر ہ کیا اور ان تعیناتیوں پر خوشی کا اظہار کیا وہیں سیاسی جماعتوں نے بھی ان تعیناتیوں پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ تحریک انصاف نے پہلی مرتبہ دو سلجھے ہو ئے افراد کوترجمان مقرر کیا ہے۔شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کی تعیناتی مواصلات کے موجودہ نظام میں عقل و فہم اور عزت کا باعث بنی گی۔جنرل عاصم سیلم باجوہ کی تعیناتی پر اپوزیشن اور صحافتی حلقوں کے کچھ تحفظات بھی ہیں کہ جنر ل عاصم سلیم باجوہ پہلے ایک ادارے کی ترجمانی کرتے تھے اب وہ حکومتی اقدامات کی ترجمانی کیسے کریں گے؟بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ سویلین عہدے کے لیے ریٹائرڈ فوجی جنرل کا انتخاب دراصل ‘سافٹ یا سمارٹ مارشل لا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان سیاست دان نہیں بلکہ لیڈر ہیں او ر اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ شبلی فرازکی بہ حیثیت وزیر اطلاعات اور جنرل عاصم سلیم باجوہ کی بطور معاون خصوصی اطلاعات تقرری جیوسٹریٹجک صورت حال میں حکومت کا ایک درست اور دانشمندانہ فیصلہ ہے جسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔شبلی فراز سیاسی حلقوںمیں سنجیدہ اور تحمل مزاج مشہور ہیںجبکہ جنرل عاصم باجوہ ابلاغیات پرگہری دسترس رکھتے ہیں ۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر پاک افواج کا موقف درست انداز میںپیش کیا اور آئی ایس پی آر کے ٹوئیٹر ہینڈل پر تین ملین فالوز دیئے۔جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کا اہم ٹاسک مسئلہ کشمیر کو ہرفورم پر میڈیا کے ذریعے بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا ہوگا۔ عاصم سلیم باجوہ نیوز میڈیا، آن لائن میڈیا اور سوشل میڈیا ٹولز کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے اور کرانے کا فن بخوبی جانتے ہیں، ماضی میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کو اپنے بام عروج تک پہنچایا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنر ل عاصم سلیم باجوہ عمران خان کا درست انتخاب ہیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت میں کرپشن کرے گا اور بچ نکلے گا تو یہ ناممکن ہے۔ فردوس عاشق اعوان سے وزارت کا واپس لینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عمرا ن خان کی ڈکشنری میں کرپشن کا لفظ ہی نہیں ہے۔