فرشتہ صفت انسان

Coronavirus lockdown

Coronavirus lockdown

تحریر : روہیل اکبر

کرونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے اور لوگ گھروں میں بیٹھ کر اس وبا کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں جنہوں نے تو کچھ بچایا ہوا ہے وہ مزے سے ان چھٹیوں کو گذار رہے ہیں اور جو دیہاڑی دار طبقہ ہے ان میں ہم جیسے قلم کے مزدور بھی شامل ہیں وہ بری طرح متاثر ہورہے ہیں حکومت اپنے طور پر کام کررہی ہے راشن اور پیسے بٹ رہے ہیں مگر اسکے باوجود کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کا کہیں کسی جگہ امداد کے لیے نام نہیں آیا اور وہ افراد اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے اللہ کے نیک بندوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب انکے دروازے کی کنڈی کھڑکے گی اور راشن کا تھیلہ دینے والا کہے گا کہ شکریہ کی کوئی بات نہیں بلکہ تاخیر سے پہنچنے کی معذرت چاہتا ہوں امید ہے کہ کپتان کی ٹائیگر فورس اور بزدار کی پنجاب فورس اس کام میں بڑھ چڑھ کر کام کریگی غربت اور بے روزگاری ہمارا آج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ان حکمرانوں کی طرف سے پیدا کیا گیا تھا جنہوں نے اس ملک کے وسائل پر ڈاکے ڈالے عوام کا خون تک نچوڑ لیا۔

عام انسان کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا ایک آج چونکہ یکم مئی ہے مزدوروں کا عالمی دن اس دن بھی مزدوروں کا خون نچوڑنے والے انکی غربت کا مذاق آڑاتے ہیں اس بار کرونا کی وجہ سے جلسے جلوس اور تقریریں نہیں کرسکے مگر ہمارے اندر وہی بے حسی مچل رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مزدور کی غربت کے جنازے کو دھوم سے نکالا جائے اگر ہمارے پچھلے حکمران اور انکو لانے والے یہ خیال کرلیتے کہ پاکستان صرف انہی کے لیے نہیں بنا تھا جہاں بیٹھ کر وہ صرف لوٹ مار کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے رہے بلکہ اس ملک کو بنانے کے لیے قربانیاں دینے والے مزدور،کسان اور غریب لوگوں بھی اسی ملک کا حصہ ہیں مگر امیر اور جاگیر دار اس وقت بھی اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے تھے آج 72سال گذارنے کے بعد ہماری غربت پر اپنی اپنی سیاسی دوکانداری چلا رہے ہیں اور انہی کی وجہ سے تقریبا پوری قوم کی حالت قابل رحم ہے ہم اندرونی اور بیرونی امداد کے منتظر ہیں۔

وزیراعظم چندہ اکھٹا کرنے کے لیے ٹیلی تھون کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ہماری غریب عوام کی مدد ہوسکے اگر ہم نے امداد پہنچانے میں تاخیر کردی تو عوام کا جینا مشکل ہوجائیگا کرونا وائرس جب سے شروع ہوا ہے اور ملک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال پیدا ہوئی ہے تب سے اب تک بھوک کے خوف سے کمزور دل لوگوں نے خود کشیاں کرلیں اور اپنے بچوں کو بھی مارنا شروع کردیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی طرف سے 12ہزار کی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے مگر جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں جہاں حکمرانوں کا صرف مال پانی اکٹھا کرنے پر ہی زور رہتا تھا وہاں پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزادر کی طرف سے راشن اور پیسے پہنچانے کا جو عمل ہے وہ بھی بہت بڑا عمل ہے۔

اتنے پیسوں اور راشن سے ایک ماہ گذر سکتا ہے بھوک کے خوف سے خود کشی کی طرف انسان مائل نہیں ہوسکتا کیونکہ اسکے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو موجود ہے حکومت کو بس ایک کام مزید یہ کرنا ہے کہ وہ بھی لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کی طرح ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر راشن اور پیسے خاموشی سے انکے گھروں تک پہنچادے اور حکم بھی یہی ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے پریس کلب ہمارا دوسرا گھر ہے جہاں ہم بے فکری سے بیٹھ کر صاف ستھرا کھانا کھاتے ہیں اپنے مسائل ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں اور پھر ان مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں ہمارے کچھ صحافی دوست جو لاہور سے تعلق نہیں رکھتے انہوں نے بھی بھوک کے خوف سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا اللہ تعالی سبھی کو معافی عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام دے (آمین) یہاں لاہور پریس کلب کا ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے دوسرے شہروں کے کلب بھی اسی طریقہ کار کو اپنا کرقلم کے مزدوروں پر مشکل کے یہ دن آسانیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

ارشد انصاری کی خدمت اور صحافی دوستوں سے پیار کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسی خدمت کی بدولت وہ مسلسل منتخب ہوتے آئے ہیں چند دن قبل ایک مرحوم صحافی دوست کی بیوی انہی حالات کا شکار تھی اور جب میرے پاس دفتر میں بیٹھ کر اپنے دل کا غم ہلکا کرچکی تو میں نے اسے ارشد انصاری کا نمبر دیا اسکی نہ جانے کیا بات ہوئی کہ وہ رونا شروع ہوگئی میں نے اسے تسلی دی کہ ہوسکتا ہے کہ ارشد انصاری کسی ٹینشن میں ہو جو آپ سے اچھے طریقے سے بات نہیں کرسکا آپ اطمینان رکھیں وہ آپ کے لیے ضرور کچھ کریگا وہ خاتون واپس گھر چلی گئی مگر رات گئے اسکا ٖفون آیا تو اسکی آواز سے لگتا تھا کہ اسکی آنکھوں میں تشکر کے آنسو بھی ہیں بتا رہی تھی کہ شام کے وقت ارشد انصاری کا فون آیا اور وہ اپنے رویہ پر معذرت کررہا تھا ہمار ایڈریس پوچھا اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی ایک لڑکا راشن اور پیسے دیکر چلا گیا کیا فرشتہ صفت انسان ہے جس نے دیا بھی اور مشہوری بھی نہیں کی کسی کو کان وکان خبر نہیں ہوئی نہ تصویر نہ خبر اور نہ ہی کسی گروپ میں ڈالا میرا مقصد کسی کی مشہوری نہیں بلکہ ایسے افراد کو ایک مثال بنا کر پیش کرنا ضرور ہے جنکی وجہ سے کسی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر خوشی کے آثار پیدا ہوجائیں۔

زندگی کی تکلیفیں تو پہلے ہی بہت زیادہ ہیں اوپر سے انسانی رویوں کی وجہ سے جو دل ٹوٹتے وہی اصل میں انسانوں کو غلط فیصلوں پر مجبور کرتے ہیں ہمارے مخیر حضرات بھی اگر اسی فارمولہ پر عمل کریں تو بہت سے افراد دوبارہ ہنسی خوشی کی طرف لوٹ آئیں گے مزدوروں کا عالمی دن بھی ہے اور مزدور اللہ کا دوست بھی جو کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اپنی خودداری کو قائم رکھتے ہوئے بھوک،پیاس اور مصائب برداشت کرتا ہے کہیں کچھ تقسیم ہورہا ہو تو لائن میں لگ جاتا ہے جہاں تصویر یا ویڈیو بن رہی ہوں تو پھر وہ وہاں سے کنارہ کرلیتا ہے اس لیے ایسے تمام افراد اور ادارے لاہور پریس کلب کی طرح مجبور افراد کی مدد کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200