افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے شہریوں نے سوشل میڈیا پر ایک فوٹیج پوسٹ کی ہے جس میں 23 افغان پناہ گزینوں کی لاشیں دکھائی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں ان 56 مقتول پناہ گزینوں میں شامل لوگوں کی ہیں جنہیں چند روز قبل ایرانی بارڈر پولیس نے غیرقانونی طورپرملک میں داخل ہونے کے بعد قتل کردیا تھا اور ان کی لاشیں افغانستان کی طرف بہنے والے دریا ‘ھریرود’ میں بہا دی تھیں۔
افغان اخبار’ھشت صبح’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی 23 پناہ گزینوں کی لاشوں والی تصویر ان 56 افغان مہاجرین میں شامل لوگوں کی ہے جنہیں ایرانی پولیس نے گرفتار کرنے کے بعد غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایااور انہیں جبرا دریا میں کودنے پرمجبور کیا گیا تھا۔
اخباری رپورٹ کے مطابق ایرانی بارڈر پولیس نے پہلے تو افغان مہاجرین پر فائرنگ کی اور انہیں بارڈر پر روک لیا گیا۔ اس کے بعد انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شدید زخمی حالت میں دریا میں پھینک دیا تھا۔
بچ جانے والے ایک پناہ گزین شرآقا طاھری نے بتایا کہ یہ پناہ گزین دو روز قبل کام کاج کے لیے ایران جانے کی کوشش کررہے تھے مگر انہیں سرحد پرروکا گیا اور اس کے بعد انہیں مارپیٹ کی گئی اور جبرا دریا برد کردیا گیا۔
یہ افغان شہری ایران اور افغانستان کے درمیان ذوالفقار کراسنگ پوائنٹ سے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ ان میں سے بیشترکا تعلق ایران کے ھرات اور فاریاب صوبوں سے ہے۔
ادھر صوبہ ھرات کے اسپتال کے ایک عہدیدار عارف جلالی نے بتایا کہ اسپتال میں دریا سے نکالی گئی پانچ افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئےہیں۔
ھرات صوبے کے ترجمان جیلانی فرھاد نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنےاوران کی لاشیں دریا میں پھینکنے کے واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں گی۔
درایں اثناء ھرات میں ایرانی قونصل خانے کی طرف سے افغان پناہ گزینوں کو سرحد پر ایرانی پولیس کے ہاتھوں قتل کرکےان کی لاشیں دریا میں پھینکنے کےواقعے کی سختی سے تردید کی ہے۔
قونصل خانے کا کہنا ہے کہ افغان وزارت خارجہ مشہد میں قائم افغان قونبصل خانے کے تعاون سے اس واقعے کی تحقیقات کررہی ہے۔ جلد ہی اس کے نتائج کابل حکومت کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔