عوام کو باخبر رکھنے کے لئے کسی بھی معاملہ کو تحریری ،تصویری / ویڈیو ،آواز کی شکل میں پڑھنے، دیکھنے ، سننے والوں تک پہنچانے کے عمل کو صحافت (جرنلزم) کہتے ہیں، صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے والے کو صحافی کہا جاتا ہے، اگر تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو شعبہ صحافت کے کئی ایک اجزا ہیں لیکن سب سے اہم لوگوں کو باخبر اور معلومات پہنچانا ہے ، معاشرے میں ہونے والی منفی ،مثبت سرگرمیاں خاص طور پرپرائیویٹ اداروں ، حکومتی اداروں ،تعلیمی اداروں ،تجارت ،کھیل ، ثقافت ،شوبزمیں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے آگاہ رکھنے میں صحافت کا سب سے بڑا عمل ہے ،صحافت کسی بھی معاشرے کے ثقافت کو اجاگر کرتی ہے۔
دنیا بھر میں 3مئی کو صحافت کا عالمی دن منایا جاتاہے اس دن کو منانے کا آغاز انیس سوا کیا نوے میں نمیبیا میں ہوا جبکہ اقوام متحدہ نے تین مئی انیس سوترانوے کو باقاعدہ طور پرآزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیااس دن صحافت سے وابستہ افراد جن کو صحافی کہا جاتا ہے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی یکسوئی سے جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں صحافتی نمائندے اس بات کی تجدید کرتے ہیں کہ کسی بھی یاستی دبائو کے بغیر آزاد، صحیح اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچانے کے بنیادی حق کے لیے کھڑے رہیں گے ،پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ پر تشدد واقعات آمرانہ دور کے ساتھ بعض جمہوری ادوار میں بھی ہوتے رہے ہیںایک اندازے کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران دنیا میں اوسطاً سالانہ انہتر صحافی قتل ہوئے،کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق 1992سے 2019 تک 13 سو 40 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اسی طرح 1994 سے اب تک دنیا بھر میں تقریباً 60 صحافی لاپتہ ہوچکے ہیںجبکہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قید کیے جانے والے صحافیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ،گزشتہ برس مختلف ممالک میں 251 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا، اگر سال 2020کی سہ ماہی کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ایک محتاط انداز ے کے مطابق تین سوسے زائد بنتی ہے ،کمیٹی کے مطابق اس پیشے میں متاثر ہونے والے صحافیوں کی 75 فیصد تعداد جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہوتے ہیں،وطن عزیز پاکستان میں آمرانہ دور اور جمہوری ادوار میں بہت سے صحافی جیلوں میں بند رہے اور یہ سلسلہ ب بھی جاری ہے پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے کے مالک پر مختلف الزامات لگا کر آجکل پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ چند ایک صحافتی ادارے حکومت کے اس اقدام کی تعریف کرتے بھی نظر آتے ہیں، اس میں کسی کوکوئی اختلاف نہیں کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر پکڑ ہونی چاہیے لیکن یہ بات یقینا تکلیف دہ ہے کہ اپنی پسند نا پسند کی بنا پر کسی ادارے کو بندیا شخص کو جیل کی سلاخوں ے پیچھے ڈال دیا جائے سانچ کے قارئین کرام ! حکومت اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر صحافیوں سے جارحانہ بلکہ جابرانہ رویہ رکھے جانے کے واقعات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،زرد صحافت کا ذکر بھی بہت اکثرسننے کو ملتا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحافتی ادارے اور صحافی کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کے لیے اصل خبر کی شکل اتنی مسخ کردیتے ہیں کہ اہم پہلو نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
ہیجان انگیز رپورٹنگ کرنے والے صحافی کو یقینی طور پر اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن ایسے صحافی وقتی طور پر اپنے اخبار اور چینل کی ریٹنگ تو بڑھا لیتے ہیں لیکن معاشرے میں جلد بے نقاب بھی ہوجاتے ہیں، سانچ کے قارئین کرام ! گزشتہ دنوں کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حکومت پنجاب کی جانب سے صحافیوں کی امداد کے حوالہ ایک پیکج کا اعلان کیا گیا جس پر لکھا گیا سانچ کالم کا کچھ حصہ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر شامل کر رہا ہوں ،جس میں حکومتی پیکج اور صحافت کے شعبہ سے وابستہ افراد کے مسائل کا ذکر کیا تھا “گزشتہ دنوں وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے صحافیوں کے ایک ایسے پیکج کا اعلان کیا کہ جس پر بعض صحافتی تنظیموں کے عہدیداران نے حکومتی اقدامات کی تعریف میں واہ واہ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
جبکہ اکثریت ایسی تنظیموں کے عہدیداروں کی ہے جنھوں حکومت کے پیکج کو علاقائی صحافیوں کے لئے مذاق قرار دیا علاقائی صحافیوں کے ساتھ ہمیشہ سے حکومت اور یہاں تک کہ صحافتی اداروں نے سوتیلوں سے بھی بد تر کا سلوک روا رکھا ہے سانچ کے قارئین کرام اس پر بات کرنے سے پہلے حکومت پنجاب کے صحافتی پیکج کا ذکر ضروری ہے وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ صحافی کو 1 لاکھ جبکہ جاں بحق صحافی کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے مزیدکہا کہ حکومت کے ذمے واجب الادا فنڈز جلد جاری کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے ایس او پیز بنائے ہیں، میڈیا ہاؤسز اور اخبار مالکان کو کورونا روائرس سے متعلق ایڈوائزری بھیجی ہے۔ صحافی برادری کے لیے کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور ان کے لیے پیکیج بھی بنا یا ہے۔
اگر کوئی صحافی کورونا وائرس سے متاثر ہوا تو ایک لاکھ روپے ریلیف فنڈ دیں گے جبکہ کورونا وائرس سے انتقال کرنے والے صحافی کی بیوہ کو 10 ہزار روپے ماہانہ پنشن دی جائے گی، اخبار فروشوں کو کورونا وائرس سے بچائو کے لئے حفاظتی سامان مہیا کیا جائے گا۔کسی صحافی کا کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں انتقال ہوا تو اس کے اہلِ خانہ کو 10 لاکھ روپے دیں گے۔ سانچ کے قارئین کرام میڈیا کے ساتھ ہمیشہ اپوزیشن کے تعلقات مثالی اور برسراقتدار طبقہ کو شکایات ہی رہتی ہیں سابقہ ادوار کو دیکھیں تو اس بات میں حقیقت نظر آجائے گی ،چند سال پیشتر صحافیوں خاص طور پر علاقائی صحافیوں کے مسائل مشکلات اور اداروں کی جانب سے ان سے روا رکھے جانے والے سلوک پر لکھے کالم کا کچھ حصہ شامل کر رہا ہوں۔ “صحافت کو ریاست کو چوتھا ستون کہنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ تو دیکھنے کو ملتا ہے لیکن کیا اِن میں سے کسی ایک نے بھی اس شعبہ سے وابستہ افراد کے مسائل کو جاننے کی کو شش کی ہے؟
چھوٹے شہروں خاص طور پر دوردراز کے دیہاتوں میں کسی بھی ادارے کی رپورٹنگ کرنے والا شخص جسکو عرف عام میں صحافی کہا جاتا ہے کس طرح اپنے معاشی مسائل سے لڑتا ہواشعبہ صحافت سے انصاف کرتا ہے؟ وطن عزیز پاکستان میں چھوٹے شہروں کے صحافی معاشرے میں پھیلی ہوئی نا انصافیوں ،ظلم ،کرپشن کے خلاف تو اپنا قلم اْٹھاتے ہیں لیکن اپنے گھر کو چلانے کے لیے ان کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہوتا جو اْن کے معاشی مسائل جن میں صحت ،بچوں کی تعلیم ،روزمرہ کی بنیادی چیزوں کی فراہمی کو ممکن بنائے ،وطن عزیز میں سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں صحافی بننے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں بس ایک قلم اور کاغذ لیں اور کسی بھی ادارے کا کارڈ چند ہزار میں خریدیں اور اپنے آپ کو صحافی کہنا اور کہلانا شروع کر دیں۔
یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی شعبہ کو اختیار کرنے والوں کے لیے کچھ نا کچھ تعلیمی معیار مقرر ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر کے لیے ایم بی بی ایس ،انجینئرکے لیے بی ایس سی انجینئرنگ،وکالت کے لیے ایل ایل بی تک تعلیم اور بعد ازاں لائسنس کے لیے چند مزید امتحانی مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ یہاںصحافی بننے کے لیے واجبی سا لکھنا اور پڑھنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے موجودہ دور میں بھی بڑے بڑے میڈیا کے ادارے اپنے نمائندے کی تعلیمی صلاحیت کو دیکھنے کی بجائے اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ ہمیں سال میں کتنا بزنس لے کر دے سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ آج بہت سے صحافی کسی ادارے کا کارڈ گلے میں ڈالنے سے پہلے کسی ایسے کاروبار سے وابستہ تھے جس کو چلانے میں اْنھیں خوف سارہتا تھا کہ کہیں کوئی قانونی کاروائی اْن کے کاروبار کو ختم نہ کر دے اِس پریشانی سے بچنے کے لیے کئی ایک کاروباری حضرات صحافت کے شعبہ سے منسلک ہو گئے صحافی سے عوام الناس اور معاشرہ منفی سرگرمیوں کے خاتمہ اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز اور اعلی احکام تک اپنے مسائل کی توقع تو رکھتا ہے لیکن اس بات کو بھْول جاتے ہیں کہ ایسی صلاحیتوں کا مالک وہی صحافی ہو سکتا ہے جو صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا (پروفیشن)سمجھ کر اختیار کرے اور اپنا تمام وقت صحافتی امور کی انجام دہی میں صرف کرے جبکہ ایسے صحافی اْسی صورت میں مِل سکتے ہیں۔
جب نیک نیتی سے یہ پروفیشن اختیار کرنے والے کو معاشی طور پر بھی صحافتی ادارے یا محکمہ تعلقات عامہ اور گورنمنٹ ادارے مکمل سپورٹ کریں تاکہ معاشی مجبوریوں سے تنگ آکر کوئی بھی اپنے قلم کی حرمت کو فروخت نہ کر سکے بڑے بڑے صحافتی ادارے ہوں یا چھوٹے ادارے علاقائی صحافیوں کو اعزازیہ دینے کی بجائے اْن سے بزنس کی توقع رکھتے ہیں جس کی وجہ سے علاقائی صحافی اپنے معاشی مسائل کا بوجھ اْٹھائے پھرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کے لیے بزنس اکھٹا کرنے والے شخص کے روپ میں بھٹکتا پھرتا ہے ایسے شخص سے معاشرہ کیا توقع رکھے گا ؟کہ وہ معاشرے میں منفی سرگرمیوں میں مصروف عمل افراد کی نشاندہی کر سکے محکمہ تعلقات عامہ حکومت پنجاب کی ہی بات کر لیتے ہیں کیا یہ سو فیصد ایسے افراد کو ایکریڈیشن کارڈ فراہم کرتا ہے جو واقعی ہی صحافت کے شعبہ سے نیک نیتی سے منسلک ہیں ؟اگر ہاں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان صحافیوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کرے جو دیگر گورنمنٹ کے ملازمین کو فراہم کی جارہی ہیں اور جو شخص کسی اور کاروبار سے منسلک ہو اور صحافت کی آڑ میں اپنے اچھے بْرے کاروبار کو فروغ دے رہا ہواور معاشرہ میں مثبت سرگرمیوں کے فروغ کا سبب نہ بن رہا ہو ایسے شخص کو صحافت کے شعبہ میں بین کر دینا چاہیے تاکہ ایسے افراد جو شعبہ صحافت میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو معاشرہ میں بہتری لانے کے لیے استعمال کر رہے ہوں انکی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
جبکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی صحافتی ادارے کا کارڈ گلے میں ڈال کر لوگوں کوڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بعض پولیس کے ٹاؤٹ بن کرتھانوں میں ایف آئی آر اپنے مخالفین یا جن سے رقم بٹورنی ہو کے خلاف درج کرواتے اور اپنا حصہ بانٹتے نظر آتے ہیں ،سانچ قارئین کرام !یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے جبکہ سینئر صحافی جو بڑے شہروں میں معروف اداروں سے منسلک ہوجاتے ہیں اْنکی معلومات کا زریعہ بھی علاقائی صحافی جو کہ چھوٹے شہروں ،دیہاتوں،چکوک میں ہوتے ہیں بنتے ہیں لیکن اِن علاقائی صحافیوں کے لیے یہ سینئر کبھی بھی ٹھوس اقدامات اْٹھاتے نظر نہیں آتے، بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایسے اداروں اور ان اداروں میں بیٹھے صحافیوں نے علاقائی صحافیوں کو کمائی کا زریعہ بنا رکھا ہے معذرت کے ساتھ اکثر ایسے اداروں کے مالکان اپنے نمائندوں سے مختلف مواقعوں پر ادارے کو بزنس دینے کے نام پر پیسے وصول کرتے رہتے ہیں ذرا سوچنے کی بات ہے چھوٹے شہروں کے صحافی ان حالات میں صحافت کے لئے کیا کر سکیں گے وطن عزیز میں سینکڑوں صحافتی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جنھوں نے صحافیوں کے حقوق کے لیے اپنے اپنے آئین میں نمایاں ذکر کر رکھا ہے لیکن معذرت کے ساتھ اِتنی زیادہ تنظیموں کے ہوتے ہوئے بھی علاقائی صحافی بے یارومدد گار ہی نہیں ہیں بلکہ اْن کے ساتھ معاشرہ کے چند افراد نہ صرف ہتک آمیز رویہ رکھتے ہیں بلکہ بعض کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں سے بھی جانا پڑتا ہے” ٭