دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا کہ :🚔🚔🚔🚔” ہم نازی جنگ ہار چُکے ہیں، فرانس ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یہ سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ہم کو دوبارا فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے اس لیے میرا حکم ہے🍾 کہ پیرس کے عجائب گھروں، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شہر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ہوئے پیرس کے علاہ کچھ نہ ملے … “🔮🔮🔮
جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی، وین گوہ کی تصویریں، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا💰💰💰۔
جب عجائب گھر خالی ہو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔ ٹریں روانہ تو ہو گئی لیکن شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن خراب ہو گیا۔ انجینئر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے بعد اس کے پہیے جام ہو گئے۔ انجینئر آئے، مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ہو گئی، لیکن چند کلومیٹر بعد بوائلر پھٹ گیا، انجئنیر آئے بوائلر مرمت ہوا اور ٹرین پھر چل پڑی۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے۔انجینئر آئے پسٹن مرمت ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی ..💊🌿☘🔎.
ٹرین خراب ہوتی رہی اور جرمن انجینئر اسے ٹھیک کرتے رہے یہاں تک کہ فرانس کا اقتدار فرانسیسیوں نے سنبھال لیا اور ٹرین ابھی فرانس کی حد میں ہی رہی۔ ٹرین کے ڈرائیور کو پیغام ملا کہ :🍀🍀🍀 #موسیو_بہت_شکریہ_لیکن_اب_ٹرین_ جرمنی_نہیں_واپس_پیرس_آئے_گی …🗞🗞🗞
ڈرائیور نے مکے ہوا میں لہرائے اور واپس پیرس روانہ ہو گیا۔ جب وہ پیرس پہینچا تو فرانس کی ساری لیڈرشپ اس کے استقبال کے لئے کھڑی تھی، ڈرائیور پر گُل پاشی کی گئی پھر اس کے ہاتھ میں مائیک دے دیا گیا، ڈرائیور بولا : ” جرمن گدھوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دیئے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور فرانسیسی ہے اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچا کرتی … “🚁🚁🚁🚁
عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر دی ٹرین فلم بنائی …
قارئین کرام المختصر و مقصود یہ کہ اگر اپنے ملک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی دی_ٹرین کی سٹوری سے کم نہیں، کبھی انجن فیل ہو جاتا ہے کبھی پہیہ جام، کبھی پسٹن پھٹ جاتا ہے تو کبھی بوائلر۔ پہلے دن سے اب تک بحران ہی بحران ہے۔
اس ٹرین کا ڈرائیور اصل میں کوئی اور ہے جو اس کو منزل تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ ہم سب کو مل کر اس ڈرائیور کو ڈهونڈنا ہے اور اسکے لئے پشتون، بلوچی، سندهی، پنجابی، مسلم لیگی، تحریک انصافی، بھٹوئی وغیرہ کا رنگ اتار کر پاکستانی بننا ہوگا۔ خدارا! پاکستانی بن جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ اللہ اس ارض پاک کو ہمیشہ آباد و خوشحال رکھے۔