اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کہیں شفافیت نظر نہیں آرہی اور سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس سے متعلق حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل اور تین صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
اس کے علاوہ وزارت صحت اور دیگرمتعلقہ محکموں کے حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری صحت سے اسلام آباد کے حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کے دورے کے بارے میں استفسار کیا کہ حاجی کیمپ کو قرنطینہ سینٹر کس نے بنایا؟
اس پر سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ حاجی کیمپ کو قرنطینہ سینٹر نیشنل ڈیزاسٹڑ مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بنایا۔
چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے حکام کی عدالت میں عدم موجودگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کون آیا ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ان کی طرف سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات سپریم کورٹ میں پیش ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟ کسی چیز میں شفافیت نظر نہیں آ رہی۔
کورونا اخراجات سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیسٹنگ کٹس اور یہ پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ (پی پی ای) پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں؟ اگر تھوک میں خریدا جائے تو 2 روپے کا ماسک ملتا ہے مگر پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں۔
معزز چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نہیں بتایا گیا کہ ادارے کیا کام کررہے ہیں، خریداری کیسے ہو رہی ہے اور کن کمپنیوں سے ہو رہی ہے؟ سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں، کورونا اخراجات کا آڈٹ کروایا جائے گا تو پتہ چلے گا اصل میں ہوا کیا ہے۔
اس دوران سیکرٹری صحت نے عدالت بتایا کہ وائرس کی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف شکلیں ہیں، امریکی اور یورپی کورونا وائرس زیادہ خطرناک ہے وہاں ہزاروں اموات ہو رہی ہیں۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ امریکا سے ہمارا موازنہ کیوں کررہے ہیں، یہ بالکل نہ کریں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ابتر حالت ہے، اسلام آباد میں کتنے شاپنگ مالز ہیں؟ ان میں کتنی دکانیں کرائے پر ہیں؟ کتنے ملازمین کام کرتے ہیں؟ شاپنگ مالزمیں سامان کی تقسیم سے کتنے لوگ وابستہ ہیں؟ شاپنگ مالز سے وابستہ تمام کام رک گیا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سندھ حکومت پالیسی بنانے کی بجائے صنعتیں کھولنے کی اجازت دے رہی ہے، صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں، سمجھ نہیں آرہی ملک میں کیا ہورہا ہے، ملک میں مکمل طور پر استحصال ہورہا ہے، لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کے خلاف سازش کر رہی ہیں، کوئی یکساں حکمت عملی نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہییں۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں میں تعاون نہ ہونے کی وجہ مرکز میں بیٹھےلوگوں کا متکبرانہ رویہ ہے،کیا وفاق میں بیٹھے لوگوں کو ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں کورونا سے متعلق یکساں پالیسی بنائی جائے، جسٹس یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر اسرار احمد کی باتیں آج سچ ثابت ہو رہی ہیں، ڈاکٹراسرار کی تقریریں سن لیں انہوں نے 20 سال پہلے آج کے حالات بتا دیے تھے، ہمارے ملک کا ایک حصہ ہم سے چلا گیا اور کچھ حصوں میں آگ لگی ہے، اگر ہم زکوٰۃ، صدقات اور فطرانہ کھا جائیں