آسٹریلیا (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا بحران ميں عقیدہ بہت سے انسانوں اور تحفظ ماحولیات میں مدد دیتا ہے۔ یہ کہنا ہے اقوام متحدہ کے ماحوليات کے پروگرام کی ڈائریکٹر انگر اینڈرسن اور اين جی او ‘مذاہب براۓ امن’ کی سکریٹری جنرل اعزا کرم کا۔
عقیدہ اربوں انسانوں کو روحانی اور عملی مدد فراہم کرتا ہے، خاص طور پر بحران کے وقت۔ ہم عملی طور پر ایک بار پھر ايک تجربے سے گزر رہے ہیں، اس وقت پوری دنیا میں گرجا گھروں، مساجد، مندروں اور مذہبی تنظيموں نے کورونا کی وباء کے دوران امداد، خوراک، رہائش، چندہ اور طبی سہولیات کی پیش کش کی ہے۔ ایسی یکجہتی کی فوری طور پر ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں افراد اس وبا کے جسمانی، معاشی اور جذباتی اثرات سے دوچار ہیں۔
لیکن مذاہب اور ان کے پيروکار اس سے بھی زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں: وہ انسانیت کے ذریعہ کرہ ارض کی حفاظت کو بہتر بنانے اور اپنے زیادہ اثر و رسوخ کو بروۓ کار لا کر مستقبل میں بھی بدترين بحرانوں سے بچنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
کوویڈ ۔19 اور پچھلی بیماریاں جو جانوروں سے انسانوں میں پھیلی ہیں، وہ ہمارے قدرتی مسکن اور اس میں بسنے والی مخلوقات کے ناجائز استعمال کا نتیجہ ہیں۔
گزشتہ دہائیوں کو ہی لے لیجیے، چاہے آپ اس وبائی حالت پر نظر ڈالیں، آسٹریلیا میں جنگلات کی آگ پر، ایک طویل عرصے میں سب سے زیادہ گرم جنوری پر یا کئی دہائیوں میں ہارن آف افریقہ میں ہونے والا ٹڈیوں کا بدترین پھيلاؤ-
ہمارا سیارہ ہمیں ایک فوری پیغام دے رہا ہے: ہم اپنی دیکھ بھال نہیں کرسکتے! اپنی ہی نہیں ہميں قدرتی ماحول کی دیکھ بھال بھی لازمی طور پر کرنا ہوگی۔
قدرت کی اس کال کا جواب دینا دانشمندانہ عمل ہو گا۔ COVID-19 پر ہمارا طویل المدتی ردعمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم زمین کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائيں ۔ ہمارے سیارے ‘زمین’ کے ساتھ ہم انسانوں کے تعلقات ميں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے، زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی مرمت کے ساتھ ہی ہم قدرت کی اس کال کا جواب دے سکتے ہیں۔
معیشت کو فروغ دینے کے ليے معاشی پیکيجز کے لیے قابل تجدید توانائی، جدید بنیادی ڈھانچے اور ماحول دوست اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام ميں سرمایہ کاری کی حمایت کرنا ہوگی۔
ہمیں اپنی پیداوار اور اشیا کے استعمال کی عادات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے: کم خریدیں، کم ضائع کریں اور زیادہ استعمال کریں – جیسا کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے کرفیو کے دوران کیا۔
ہمیں اپنے جنگلات کی دوبارہ کاشت اور ان کے محفوظ علاقوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی اور جنگلی حیات اور جنگل کے وسائل کی غیر قانونی تجارت کے خلاف جنگ کرنا ہوگی اور قانونی تجارت میں حفظان صحت کو بہتر بنانا ہوگا۔
ان تمام نظاموں کی تبدیلیوں کے ليے عقیدے کے رہنماؤں اور مذہبی برادريوں کا اہم کردار ہوسکتا ہے۔
ان کی تنظیمیں دنیا بھر کے اربوں انسانوں کو اہم خدمات فراہم کرنے والی قدیم ترين اور سب سے زیادہ روایتی تنظیموں میں شامل ہیں۔ یہ عام حالات کے ساتھ ساتھ ہنگامی صورتحال میں بھی عوامی خدمات انجام دینے والے اداروں کےلازمی شراکت دار یا پارٹنر کی حيثيت رکھتے ہیں۔
مذہبی تنظیموں کے پاس بڑی تعداد ميں تعلیمی ادارے موجود ہوتے ہیں، لہذا وہ انسانی صحت اور ہمارے سیارے ‘زمین’ کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عام حالات کے علاوہ موجودہ وبائی بیماریوں کے وقت بھی دوردراز علاقوں کی آبادی کے انتہائی مشکل حصوں تک طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
اس طرح کی فعال مصروفیات اور سرحد پار تعاون کی ایک مثال بین المذاہب بارانی جنگلات کا انيشی ایٹیو ہے، یہ ایک عالمی پارٹنرشپ یا شراکت ہے جس میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور اين جی او ‘مذاہب براۓ امن’ شامل ہیں، جو اس پیش قدمی کے نگہبان کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات اچھا آغاز ہیں، لیکن ہم اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ انسانوں نے ان چیزوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے جو خالق نے انہيں عطا کيں۔ مذہبی رہنماؤں کو لازمی طور پر ایک صحت مند سیارے کی تلاش کے لیے اپنا کافی اثر و رسوخ استعمال کرنا چا ہیے-
عقيدے کے ماننے والوں کو ہر مذہب کے صحیفوں اور ہر عقیدے کی روایات میں موجود خالق کی تخلیق کو محفوظ رکھنے کی ہدایات پر چلنا ہوگا۔ آنے والی نسلوں کے ليے پائیدار مستقبل بنانے ميں مل کر اس طاقت کو استعمال کرنا ہوگا۔