اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان جلد کوڈ انیس کی ٹیسٹنگ کٹس اور این 95 ماسک کمرشل سطح پر بنانا شروع کر دے گا۔
اسلام آباد سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بتایا کہ وزارت سائنس کے تحت پاکستان میں طبی ساز و سامان بڑے پیمانے پر تیار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تشخیص 26 فروری کو ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستان وہ میڈیکل ساز وسامان تیار نہیں کرر ہا تھا جو کورونا وائرس کے علاج کے دوران درکار ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کی تشخیص کی خبر کے چند دنوں میں ہی ملک بھر میں ہینڈ سینیٹائزر کی کمی ہو گئی تھی۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزارت سائنس نے ان اداروں سے رابطہ کیا جو سینیٹائزر میں استعمال ہونے والا خام مال ایتھینول برآمد کر رہے تھے۔ ان اداروں نے سینیٹائزر بنانے کا کام شروع کیا۔ اب پاکستان ہینڈ سینیٹائزر، جراثیم کش سپرے، اور آپریشن تھیٹرز میں بھی جو جراثیم کش مواد استعمال ہوتا ہے وہ وافر مقدار میں بنا رہا ہے۔
ٹیسٹنگ کٹس کے حوالے سے وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان میں بنائی گئی ٹیسٹنگ کٹس کو ساٹھ افراد پر ٹیسٹ کیا گیا تھا ان میں سے 90 فیصد تنائج آئے۔ ان ٹیسٹنگ کٹس کو بنانے کے لیے ایسے خام مال کی ضرورت تھی جسے چین سے آنے میں تاخیر ہوئی لیکن اب وہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ فواد چوہدری نے بتایا،” تین مئی سے پاکستان کی تیار کردہ کووڈ انیس ٹیسٹ کٹس کا تجربہ این آئی ایچ میں شروع کر دیا گیا ہے۔ پانچ سو ٹیسٹ مزید کیے جائیں گے جس کے بعد اسے کمرشل سطح پر بنایا جائے گا۔‘‘
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وینٹیلیٹرز کی کمی نہیں ہے۔ سرکار کے پاس 270 وینٹیلیٹرز موجود ہیں اور پرائیویٹ اداروں کے پاس بھی وینٹیلیٹرز دستیاب ہیں۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ پاکستان انجیئنرنگ کونسل کی جانب سے وینٹیلیٹرز بنانے کے 58 تجاویز موسول ہوئی تھیں۔ ان میں سے 13 ڈیزائنز شارٹ لسٹ کیے گئے، اور سات ڈیزائنز کی منظوری کی گئی۔ اب ان کی تیاری کا کام جاری ہے اور یہ جلد ہسپتالوں کو فراہم کر دیے جائیں گے۔
لیکن اس کے باوجود پاکستان میں روز طبی عملہ متاثر ہورہا ہے۔ اب تک 444 طبی عملہ کووڈ انیس سے متاثر ہو چکا ہے۔ ڈکٹرز کی ہلاکتیں بھی ہو رہی ہے۔ تو کیا ہسپتالوں میں طبی سازو سامان پہنچایا جا رہے ہے؟
اس سوال کا جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سپلائی چین کی ذمہ داری این ڈی ایم کی ہے۔ اسے موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ این ڈی ایم ہے صوبوں کی وزارت صحت کے ساتھ کام کر رہا ہے اور وہاں سے سپلائی لائن کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔