جب سے ہماری ”ماسی مصیبتے” کی چھٹی ہوئی ہے، الیکٹرانک میڈیا روکھا سوکھا اور پھیکا پھیکا سا لگنے لگا ہے۔ وہ الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہتی تھیں اور جب بھی ٹی وی آن کرو سٹارپلس کے ڈراموں کی طرح اُن کا نیا ”ایپی سوڈ” جاری ہوتا۔ ہم اُن کی ”طرح دار” باتوں کے خوب چسکے لیتے۔ ہمارے لیے وہ کسی نعمت سے کم نہ تھیں کیونکہ اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے ہمیں اِدھر اُدھر جھانکنا نہیں پڑتا تھا۔ یوں تو تحریکِ انصاف میں ” رَہنماؤں” کاآنا جانا لگا ہی رہتا ہے لیکن جس طرح ماسی مصیبتے کو نکالا گیا، وہ ہمیں بالکل پسند نہیں آیا، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ بہتر یہی تھا کہ اُنہیں استعفیٰ دینے کے لیے کہا جاتا تاکہ اُن کا کچھ توبھرم رہ جاتا لیکن اُنہیں تو یوں نکال دیا گیا جیسے مکھن سے بال۔ ہم اِس اہانت آمیز رویے پر بھرپور احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اب اگر ماسی مصیبتے گلی گلی شور مچاتی پھریں کہ ”مجھے کیوں نکالا” تو وہ حق بجانب ہوں گی۔ ویسے خانِ اعظم کو جلد احساس ہو جائے گا کہ ماسی مصیبتے میڈیا اور اپوزیشن کے لیے ”کورونا وائرس” سے کم خطرناک نہ تھیں۔ اِسی لیے تو اُن کی باتوں کا جواب دینے کی کسی میں ہمت نہیں تھی کیونکہ ”اپنی عزت اپنے ہَتھ”۔
ماسی مصیبتے کی اہمیت تو یوں بھی اجاگر ہوتی ہے کہ اب خانِ اعظم کو ایک خاتون کی جگہ 2 مردوں کا سہارا لینا پڑا۔ کہے دیتے ہیں کہ اب وزارتِ اطلاعات کا قلمدان جن 2 اصحاب کے سپرد کیا گیا ہے، اُن میں ماسی مصیبتے کا سا ”کھڑاک” مفقود۔ گنڈاسا لے کر کشتوں کے پُشتے لگانے والی ماسی مصیبتے کی گدی سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے حصّے آئی اور ”وَڈی” وزارت پر سینیٹر شبلی فراز براجمان ہوئے۔ شبلی فراز عظیم شاعر احمد فراز کے فرزند ہیں، وہی احمد فراز جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک عہد وزارتِ اطلاعات میں”اَفسری” کرتے گزارا۔ اِس لیے شبلی فراز کو وزارتِ اطلاعات سمجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِس وزارت کے اسرار ورموز تواُن کی گھٹی میں پڑے ہیں۔ مشیرِ اطلاعات عاصم سلیم باجوہ 4 سال تک آئی ایس پی آر کے ڈی جی رہے۔
اُنہیں بھی کسی کی گائیڈ لائین کی ضرورت نہیں کہ تجربہ اُن کا بھی مستند۔ دونوں ہی مرنجاں مرنج، دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے اور افہام وتفہیم کی فضاؤں میں زندہ رہنے والے لیکن یہ صلاحیتیں خانِ اعظم کو قطعاََ پسند نہیں۔ اُنہیں تو ”کھڑاک” کرنے والے لوگ ہی پسند ہیں جیسے شیخ رشید، فواد چودھری،فیصل واوڈا، مراد سعید، فیاض چوہان اور اُن جیسے دوسرے لوگ۔ خانِ اعظم کے اِس یوٹرن پر ہم بھی انگشت بدنداں کہ کہاں ہر کھڑاک کرنے والا اُن کا مطلوب ومقصود اور محبوب اور کہاں دھیمے سُروں میں بات کرنے والے شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ۔ جس کی محبوبہ ”سونامی” ہو وہ گنگناتی ندیوں سے بھلا کیسے نباہ کر سکتا ہے۔ اِس لیے ہمیں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ شبلی فراز کی تو خیر کوئی بات نہیں لیکن عاصم سلیم باجوہ کی چھٹی کروانا شاید خانِ اعظم کے بَس کا روگ نہ ہو کہ اقتدار کے ”اصلی تے وَڈے ایوان” کبھی یہ پسند نہیں کریں گے۔ ویسے بھی آجکل کورونا کے وار جاری ہیں اِس لیے فی الحال تو حکمرانوں کو اپنا ہوش نہیں کہ کورونا نے سبھی کے ہوش اُڑا رکھے ہیں۔ ایک ننھے مُنے جرثومے نے اشرف المخلوقات کو اُس کی اوقات یاد دلا دی۔ مسجدیں بند، چرچ بند، بُت خانے بند۔ مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی سرگرمیاں بند۔ فضائی رابطے مفقود اور نقل وحرکت پر پابندی۔ ایٹم بم بنانے، اسلحے کے انبار لگانے اور ستاروں پہ کمندیں ڈالنے والے اِس جرثومے سے چھٹکارا پانے کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھے مگر بے سود۔ اشرافیہ یوں اپنے گھروں میں گھُسی بیٹھی ہے جیسے آزاد پنچھیوں کو کسی نے پنجروں میں قید کر دیا ہو۔ وہ پھڑپھڑاتے ضرور ہیں لیکن رہائی نہیں پا سکتے۔اشرافیہ کی بے بسی دیکھ کر جانے کیوں یاد آیا
آج دِل کو چھو گئی اِک دم پرندے کی یہ بات اب بتاؤ قیدیوں سی زندگی کیسی لگی
کورونا کے وار جاری مگر ”منچلوں” پر ”کَکھ” اثر نہیں۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں لاہور کی فضاؤں میں بھارتی طیاروں کو مُنہ توڑ جواب دینے کے لیے شاہیں اُڑے تو لاہوریے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر ”بو کاٹا، بوکاٹا” کے نعرے لگانے لگے۔ بالآخر پاک فضائیہ کو کہنا پڑا کہ لاہوریے گھروں کے اندر رہیں کیونکہ اُن کی چھتوں پر موجودگی سے دشمن کا مقابلہ کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ یہی لاہوریے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈنڈے لے کر سرحدوں پر پہنچ گئے جنہیں پاک فوج کے جوانوں نے بڑی مشکل سے واپس بھیجا۔ یہ بہادری نہیں، حماقت تھی اور یہی حماقت آج بھی اَن دیکھے دشمن (کورونا وائرس) کے حوالے سے جاری۔ حکمران ڈھیلا ڈھالا لاک ڈاؤن کیے بیٹھے ہیں لیکن منچلے اُسی طرح سے سڑکوں پر نکلتے، پکنک مناتے، چھتوں پر باربی کیو اور پتنگ بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی کو ہوش ہی نہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں جس میں سماجی فاصلہ ضروری۔ یہ وہ تیسری عالمی جنگ ہے جس میں قومیں قوموں کے خلاف اور ملک ملکوں کے خلاف صف آرا نہیں بلکہ سبھی ایک اَن دیکھے دشمن کے خلاف نبرد آزما۔ اِس جنگ کی افواج بھی مختلف یعنی میڈیکل اور پیرامیڈیکل فورسز جو قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کررہی ہیں۔ سماجی فاصلہ رکھنے کی بار بار تاکید کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہ ”جری” تو مسیحائی ہی اُن لوگوں کی کر رہے ہیں جو اِس جرثومے کے ہاتھوں گھائل۔ اِس لیے اُن کے لیے سماجی فاصلہ رکھنا ناممکن۔ یہی مسیحا ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپیلیں کر رہے ہیں کہ گھروں میں بیٹھ رہیں لیکن بے سود۔ لیڈی ڈاکٹرز ایک پریس کانفرنس میں یہی اپیل کرتے کرتے اشک بار ہو گئیں لیکن مجال ہے جو منچلوں پر کچھ اثر ہوا ہو۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف اِن منچلوں کو اِن کے حال پر چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ رہے لیکن ایسا ہوگا نہیں کہ یہ مسیحا اپنی جانوں کی قربانی دے کر بھی اپنا فرض نبھاتے رہیں گے۔
اُدھر حکمرانوں کا یہ حال کہ منزل کا نشاں نہیں، سمت کا تعین نہیں۔ خانِ اعظم پہلے دن سے ہی لاک ڈاؤن کے خلاف ۔ اُنہوں نے فرمایا ”حکمران اشرافیہ نے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کیا کہ ملک میں لاک ڈاؤن کرنا ہے۔ لاک ڈاؤن کا فیصلہ امیروں نے کیا، غریب اور مزدور آدمی کا سوچا ہی نہیں۔ اگر کورونا وبا صرف غریب شکار ہوتے تو کبھی لاک ڈاؤن کرنے میں اتنی تیزی نہ دکھائی جاتی”۔ اگر ہماری یادداشت کمزور نہیں تو غالباََ ملک کے وزیرِاعظم خانِ اعظم ہی ہیں اور ”حکمران اشرافیہ” بھی وہی۔ کیا وہ اتنے بے بس اور لاچار ہیں کہ اُمراء مَن مانی کرتے اور وہ مُنہ دیکھتے رہ جاتے ہیں؟۔ چلیں مان لیا کہ صوبہ سندھ کی حکومت مَن مانی کرتی ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو اُن کی اپنی حکومت ہے اور صوبہ بلوچستان اُن کے زیرِاثر۔ کیا یہ صوبے بھی من مانی کرتے ہیں؟۔ چلیں صوبوں کو چھوڑیں، کیا وفاق بھی اُن کے زیرِاثر نہیں؟۔ اسلام آباد میں بھی ویسا ہی لاک ڈاؤن ہے جیسا باقی صوبوں میں۔ پھر خانِ اعظم کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟۔ خانِ اعظم نے یہ بھی فرمایا ”نریندر مودی اتنا ڈرپوک نکلا کہ کورونا کی وجہ سے پورا ملک بند کر دیا”۔ دست بستہ عرض ہے کہ بہادری اور بیوقوفی میں فرق ہوتا ہے ۔
وحشی درندہ نریندر مودی بیوقوف نہیں، اِسی لیے اُس نے کہا کہ پہلے قوم کو بچا لیں، معیشت کی باری بعد میں آئے گی، اگر قوم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ کیا پوری دنیا ڈرپوک ہے جو مکمل لاک ڈاؤن کیے بیٹھی ہے؟۔ یورپ اور امریکہ کی مثال سب کے سامنے جن کے حکمرانوں نے ابتداء میں کورونا وائرس کو بَس ”ایویں ای” سمجھا اور جب اِس کی تباہ کاریوں نے سب کچھ اُتھل پُتھل کر دیا تو سر پکڑ کر بیٹھ رہے۔ چین عقلمند نکلاجس نے ابتداء ہی میں لاک ڈاؤن کیا، حفاظتی اقدامات میں تیزی دکھائی اور اِس وائرس کو نکال باہر کیا۔ یہ بجا کہ فی الحال پاکستان میں کورونا کی تباہ کاریاں کم ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ اِس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کورونا وائرس ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے اگر ہم بھی یورپ اور امریکہ کی طرح ایک لاکھ ٹیسٹ روزانہ کرنا شروع کر دیں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہو جائے گی۔ اِس لیے مکمل لاک ڈاؤن میں ہی عافیت ہے کہ ”جان ہے تو جہان ہے”۔ ویسے بھی اِس قوم میں اور کوئی خوبی ہو نہ ہو، یہ مخیر بہت ،ہمیں یقین کہ پاکستان میں کوئی بھوک سے نہیں مرے گا۔
آخر میںمولانا طارق جمیل کی خدمت میں عقیدت مندانہ عرض کہ اُن کی وجاہتِ علمی کے ہم بھی اسیر۔ فنِ تقریر میں بھی وہ فی زمانہ یکتا۔ سوال مگر یہ کہ اُنہوں نے ایسی باتیں ہی کیوں کیں جن پر اُنہیں بعد میں غیرمشروط معافی مانگنی پڑی۔ کورونا وائرس کے سلسلے میں فنڈریزنگ میراتھون میں دعائیہ کلمات کہتے ہوئے اُنہوں نے نہ صرف یہ کہا کہ میڈیا پر جھوٹ بِکتاہے بلکہ یہ کہہ کر سیاسی گٹر میں بھی پتھر پھینک دیا کہ عمران خاں واحد دیانتدار آدمی ہے جسے اُجڑا ہوا چمن ملا۔ گٹر کے چھینٹے اُن کے اپنے دامن کو ہی داغدار کر گئے۔ تاریخِ اسلام کے صفحات گواہ کہ علمائے حق نے ہمیشہ سرکار، دربار سے فاصلہ رکھنے کو ہی بہتر جانا کہ اُن کی اپنی ایک دنیا جس کے وہ شاہ، بادشاہ، شہنشاہ۔ جو سیاسی گٹر میں اُترا، اپنا دامن نہ بچا سکا۔ مولانا طاہرالقادری کی مثال سب کے سامنے۔ فنِ تقریر کے وہ بھی اُستاد۔ گھنٹوں بلکہ پہروں سنتے جائیے سَر دھنتے جائیے۔ حلقۂ احباب وسیع، مریدین لا تعداد۔ جب سیاسی گٹر میں اُترے تو آلودہ دامانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ چاروں طرف سے طنزوتعریض کے تیروں کی ایسی برسات کہ اللہ کی پناہ۔ بالآخر اُنہوں نے سیاست سے علیحدگی میں ہی عافیت جانی۔ اگر مولانا طارق جمیل کورونا وائرس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے صرف دعاؤں تک ہی محدود رہتے تو بہتر تھا۔