لاک ڈاؤن میں نرمی کا عندی ہ،تاجر برادری کے لئے بڑی خوش خبری بنا۔ کیونکہ رمضان المبارک کے عید شاپنگ پر عوام اربوں روپے خرچ کرتے رہے ہیں۔ رمضان سیز ن میں مارکیٹوں، دُکانوں کا بند ہونا، تاجر برداری کے لئے ایسا ہی ہے جیسا کسی نے اُن کا حق غضب کرلیا ہو۔ گذشتہ برس عید سیزن پر صرف کراچی کے لئے50ارب روپے کی خریداری کا تخمینہ تھا، لیکن مہنگائی کے باعث عید سیل صرف35ارب روپے تک محدود رہی اور پچاس فیصد تیار مصنوعات بھی فروخت نہ ہوسکیں۔ اس بار مہنگائی کے علاوہ لاک ڈاؤن نے غریب و متوسط طبقے کو بدترین نشانہ بنایا۔ صوبے اچھی طرح جانتے تھے کہ جب تک وفاق ساتھ نہ دے، اُس وقت تک ان اقدامات کا خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں۔ صوبہ سندھ نے اپنے تئیں ایک صائب فیصلہ کیاتاہم لاک ڈاؤن کے بعدمع مولات زندگی متاثر ہونے کے ساتھ معیشت بھی منجمد ہوگئی اور بتدریج ملکی معیشت آئی سی یو میں چلی گئی۔
وزیر اعظم پر دباؤ ڈالاجاتا رہا کہ وہ پورے ملک میں یکساں لاک ڈاؤن کریں، لیکن وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ فضائی، زمینی راستے کھلے رہے اورکرونا کے مریض آتے رہے، یہاں تک کہ پہلی موت جب خیبر پختونخوا میں سامنے آئی تو احساس ہونے لگا کہ صرف چین و تفتان اور افغانستان سے آنے والوں کی نگہبانی کے ساتھ بیرون ملک سے آنے والے تمام اوورسیز کو چیک کرنے کی ضرورت ہے، جب دنیا نے اپنے ائیر پورٹس بند کردیئے تو پاکستان میں فلائٹ آپریشن بھی انڈر گراؤنڈ ہوگئے۔ریلوے و پبلک ٹرانسپورٹ، سندھ حکومت، پھر دیگر صوبائی حکومتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن پر بندش ا وفاقی وزرا ء کی مجبوری بن گئی، اگر اُن کے بس میں ہوتا تو وہ ابھی تک ٹرین و ٹرانسپورٹ چلا رہے ہوتے اور اپنی بیان بازی سے ثابت کرتے رہتے کہ کرونا سے مسافرمحفوظ ر ہیں گے، سارا قصور پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے، کیونکہ انہوں نے ملک کو لوٹا، منی لانڈرنگ کی اور خزانے کا سارا پیسہ باہر ملک لے گئے۔
کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔شہر قائدکے لئے 45.5ارب روپے ترقیاتی فنڈ میں رکھے گئے تھے لیکن وفاقی حکومت نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لئے رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ ایک پائی بھی جاری نہیں کی۔پچاس فیصد خسارے کے70کھرب22ارب روپے کے بجٹ میں حکومت نے55کھرب55ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا تھا،جو گذشتہ برس کی بانسبت بلا واسطہ3 کھرب46ارب روپے، جبکہ بلواسطہ 7کھرب73ارب روپے بڑھائے گئے۔ اُسی وقت معاشی ماہرین نے اپنے تحفظات کا اظہار کردیا تھا کہ حکومت کے لئے ٹیکس اہداف حاصل کرنا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہوگا، جو درست ثابت ہوا۔کیونکہ اس وقت 35کھرب 60ارب روپے مالی خسارہ تھا۔کچھ کالا دھن کو سفید بنانے کے لئے سکیمیں بنیں، لیکن خاطر خوا ہ رقم اکھٹی ہونے کے باوجود حکومت کے لئے مالیاتی اعداد و شمار مایوس کن رہے۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ کرونا سے قبل معیشت مستحکم ہونا شروع ہوگئی تھی وغیر ہ وغیرہ۔ لیکن اعداد و شمار اس دعوی کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مئی میں بجٹ پیش کرنا، حکومت کے لئے ناممکن ہوتا جارہا ہے کیونکہ جی ڈی پی، ریونیو، بجٹ خسارے،درآمدات و برآمدات،ادائیگیوں کے توازن و تجارتی خسارے سمیت دیگر تمام اقتصادی اہداف حاصل ہونا ناممکن ہوچکے ہیں۔ جبکہ 1300ارب روپے سے زائد کا معاشی خسارے کا سامنا بھی ظاہر کیا گیا۔
جب کرونا نے پاکستان میں قدم جمانے شروع کئے تو متعددمفروضے زیرگردش ہوئے۔ ان مبینہ مفروضوں کی حقیقت کا فیصلہ عوام و ماہرین پر چھوڑتے ہیں۔ پہلا مبینہ نظریہ، یہ سامنے آیا کہ حکومت سہل پسندی کرکے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قرضے ری شیڈول کرانے کی کوشش کرے گی اور عالمی مالی امداد کی طالب ہوگی۔ وزیر اعظم نے اپنے پہلی ہی تقریر میں عالمی اداروں سے اپیل کردی تھی کہ کرونا صورتحال پر ترقی پذیر ممالک کے قرضے معاف یا سہولت فراہم کی جائے، جس کے بعدسہل پسندی کا مبینہ مفروضہ مزید زور پکڑتا چلا گیا،اس مفروضے کی رد میں امریکا، برطانیہ وغیرہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی مثال دی جاتی کہ اگر ترقی پذیر ممالک ایسا کررہے ہیں تو ان ممالک کو کیا ضرورت ہے اور وہاں کیوں اتنی ہلاکتیں اور تباہی ہے۔اس بحث کو اس سطر پر مختصر کرتا ہوں کہ جنگ عظیم اوّل و دوم اور نائن الیون واقعے کے بعدمیں جتنی ہلاکتیں و بربادی ہوئی، اُس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی، لیکن اس کے باوجود جنگ کے ذے دار ممالک کمزور نہیں بلکہ مالی طور پر مزید مضبوط ہوئے۔
دوسرا مبینہ مفروضہ سیاسی پنڈتوں نے کچھ اس طرح بیان کیا کہ لاک ڈاؤن کے نام پر معیشت کو زیادہ سے زیادہ بجٹ تک منجمد رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی، تاکہ اس سے وفاق کو براہ راست مالی و سیاسی نقصان پہنچے، ریونیو کم ہونے سے بجٹ میں ٹیکس کا بوجھ بڑھانا ناگزیر ہوجائے، عوام کو ریلیف کم اور بجٹ میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہونے کے باعث حکومتی اقتصادی پالیسیاں بدترین سطح پر متاثر ہوں۔ مہنگائی و بے روزگاری کا ایک بڑا سونامی آسکتا ہے اور عوام کی قوت برداشت ختم ہونے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کا مزید چلنا دشوار ہوجائے گا، اس دوران سیاسی جماعتیں احتجاجی تحریکیں شروع کرکے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔
اگر مقتدر حلقے مدٹرم انتخابات پر ارباب اختیار راضی نہیں ہوئے تو مائنس عمران خان یا پھر قومی و ٹیکنو کریٹ حکومت کی راہ ہموار ہوجائے گی، (ٹیکنوکریٹ حکومت کی حمایت عمران خان اسلام آباد دھرنے میں کرچکے ہیں)۔ ان مفروضوں پر یقین کرنے کو قطعی دل نہیں چاہتا اور راقم اس حوالے سے تحفظات رکھتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عالمی وَبا کا فائدہ اٹھا نے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ لیکن جنوری تا مئی، جس طرح وفاق و صوبائی حکومتوں میں کوآرڈی نیشن کا فقدان رہا و سیاسی چاند ماری عروج پر ہے، ان شکوک کو جنم دیتا ہے کہ سیاست میں حرف آخر کبھی نہیں ہوتا۔ کراچی کے تجارتی لاک ڈاؤن نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اسی طرح ملک بھر کی صنعتیں بند ہونے سے رہی سہی کسر پوری ہوئی۔ تاہم ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر جب بند رہا تو اس کا واضح مطلب معاشی حب ’کرونا‘ کے باعث پوری مملکت کو وینٹی لیٹر میں لے گیا۔ دیکھنا ہوگا کہ حکومت غریب و متوسط طبقے کے لئے مالیاتی بجٹ 2020-2021کے لئے کیا اقدامات و لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔