نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کو پھیلانے کے حوالے سے تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد کاندھلوی کی متنازعہ آڈیوکلپ سے اب ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
پولیس نے اپنی ایک رپورٹ میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ مولانا سعد کے حوالے سے شیئر کی جانے والی آڈیو کلپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے لیکن جب ایک اخبار نے یہ خبر شائع کردی تو پولیس نے اپنی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے اخبار کے دو صحافیوں کو دفتر طلب کرلیا۔
دہلی سے شائع ہونے والے روزنامہ انڈین ایکسپریس نے بھارتی وزارت داخلہ کے تھنک ٹینک بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ (پی بی آر اینڈ ڈی) کی آفیشیل ویب سائٹ پرموجود”قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے لیے رہنما خطوط” کے عنوان سے 40 صفحات پر مشتمل ایک گائیڈ لائنز میں ”فیک نیوز کی نشاندہی اور تفتیش کیسے کریں” کے موضوع پر شائع ایک مضمون کے حوالے سے بتایا تھا کہ تبلیغی جماعت کے سر براہ مولانا سعد کاندھلوی کے متنازعہ آڈیو کلپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی جس کا انکشاف جانچ میں ہوا ہے۔
خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متنازعہ آڈیو کلپ کی جب پولیس نے جانچ کی تو انکشاف ہوا کہ اس آڈیو میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور اسے غالباً کئی آڈیو کلپس کو جو ڑ کر تیار کیا گیا ہے۔ اور پولیس نے اس آڈیو کلپ سمیت دیگر کئی آڈیو کلپ کو جانچ کے لیے فارینزک لیباریٹری بھیج دیا ہے۔
خیال رہے کہ مولا نا سعد کے حوالے سے ایک متنازعہ کلپ کو بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا میں خوب اچھالا گیا تھا۔ اس آڈیو کلپ میں مولانا سعدمبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس تازہ ترین پیش رفت کے حوالے بھارت میں مسلم مذہبی اور سماجی تنظیموں کی نمائندہ انجمن آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ڈی ڈبلیو اردو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا”تبلیغی جماعت کے تعلق سے یہاں جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں ان کی بیوقوفی تو ہوسکتی ہے یا ان کی نادانی تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس معاملے کو میڈیا میں کافی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اسے استعمال کیا۔ بی جے پی کو محسوس ہو رہا تھا کہ اسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف اس کا جو ایجنڈا ہے وہ کووڈ انیس کی وجہ سے پیچھے چلا جارہا ہے اس کو انہوں نے دوبارہ زندہ رکھنے کے لیے تبلیغی جماعت کے معاملے کے حوالے سے سازش کی۔”
نوید حامد کے مطابق یہ تو ایک کھلا راز ہے کہ یہ حکمراں جماعت کا سیاسی ایجنڈا ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔
Coronavirus | Bangladesch | Moschee (DW/H. Ur Rashid Swapan) تبلیغی جماعت کے سینکڑوں افراد کو قرنطینہ کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد بھی نہیں چھوڑا گیا
اس آڈیو کلپ کی بنیاد پر ملک میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کے خلاف بالخصوص اور مسلمانوں کے خلاف بالعموم منافرت کا ماحول تیار کردیا گیا۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ تفریق برتی جارہی ہے۔ چھوٹے مسلمان دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور مسلمانوں کا معاشی اورسماجی بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔
دوسر ی طرف تبلیغی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں کو قرنطینہ کے نام پر آئسولیشن سینٹروں میں ڈال دیا گیا اور قرنطینہ کی مدت ختم ہونے کے ہفتوں بعد بھی انہیں اس وقت رخصت نہیں کیا گيا جب تک حکومت پر ہر طرف سے نکتہ چینی نہیں ہوئی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق مولانا سعد کے حوالے سے خبر شائع ہونے کے دوسرے روز گزشتہ اتوارکو پی بی آر اینڈ ڈی نے اپنی ویب سائٹ سے مذکورہ رپورٹ ہٹالی۔ اور ایک بیان جاری کرکے مذکورہ اخبار کی خبر کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ یہ رپورٹ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔اس میں صرف ذرائع کا استعمال کیا گیا ہے اور پولیس اب بھی مولانا سعد کی تمام آڈیو کی جانچ کررہی ہے۔
دہلی پولیس نے اس کے ساتھ ہی اخبار کے سٹی ایڈیٹر اور چیف رپورٹر کواپنے دفتر میں طلب کیا اور ان سے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔ پولیس نے دونوں صحافیوں سے کہا کہ وہ اس معاملے کی جانچ میں تعاون کریں ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
دہلی پولیس نے مولانا سعد اور ان کے دیگر چھ معاونین کے خلاف غیر ارادتاً قتل کا معاملہ درج کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ لاک ڈاون کے باوجود انہوں نے بستی حضرت نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز میں تقریباً دو ہزار لوگوں کو جمع کیا تھا۔ حالانکہ مولانا سعد ان الزامات کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ لاک ڈاون شروع ہونے سے بہت پہلے ہی مقررہ پروگرام کے مطابق مرکز پہنچے تھے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے لاک ڈاون کے بعد مسجد میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کا خیال ہے کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے بحران پر انہوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ سلمان خورشید کا کہنا ہے کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کے کورونا سے متاثر ہونے کی تعداداس لیے زیادہ دکھائی دے رہی کیوں کہ ان کا کافی سختی سے جانچ کیا گیا۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن اگر یہی طریقہ دوسری جگہوں کے لیے مثلاً ممبئی میں ایشیا کی سب سے بڑی کچی بستی دھاروای میں اپنایا جاتا تو وہاں بھی متاثرین کی بہت زیادہ تعداد سامنے آتی۔