کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کا پھیلاؤ اور اس سے بچاؤ سے متعلق کیے گئے اقدامات پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان فاصلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب یوم علی کے موقع پر جلوس نکالنے کے حوالے سے بھی شہری مخمصے کا شکار ہیں۔
اکیس رمضان کو یوم علی کی مناسبت سے کراچی میں نکالے جانے والے لوس سے متعلق بھی شہریوں میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ کراچی کی شیعہ تنظیمیں بار بار سندھ حکومت سے جلوس نکالنے کے لیے اجازت دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ شیعہ علما کا کہنا ہے ایس او پیز کے تحت وہ ماتمی جلوس نکالنے کو تیار ہیں جبکہ بعض افراد نے حکومتی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتیاط کے پیش نظر جلوس نہیں نکالنا چاہیے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علی حسین نقوی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،”سندھ حکومت کی جانب سے مجلس و جلوس عزاداری امام علی کے انعقاد میں ابہام پیدا کرنا باعث تشویش ہے‘‘۔
ادھر ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے ایک بار پھر سندھ میں مذہبی تقریبات، مجالس، جلوس پر پابندی برقرار رہنے کا اعلان کیا ہے۔ مرتضیٰ وہاب نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،”لاک ڈاؤن میں نرمی سے کورونا وائرس مزید پھیلے گا، ہم نے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف جرمانے سمیت دیگر سزاؤں کا آرڈیننس بھی گورنر سندھ کو بھیجا ہے، عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل کریں۔‘‘
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو حکومت کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑسکتا ہے جبکہ وزیراعلی سندھ نے آج کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے سندھ مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن کا بھی افتتاح کیا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہیلپ لائن کے ذریعے نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کو مدد فراہم کی جائے گی۔
دوسری جانب محکمہ داخلہ سندھ نے گیارہ مئی سے تمام دکانیں اور کاروباری مراکز کھولنے کا اعلان کیا، جس کے لیے ایس او پیز پر عملدرآمد کو لازمی قرار دیا لیکن شہریوں نے حکومت سندھ کے احکامات ہوا میں اڑا دیے۔ حکومتی اعلان کے بعد کراچی کے تمام علاقوں میں بازار تو کھل گئے لیکن سماجی فاصلے کا خیال نہ رکھا گیا، بعض دکاندار اور خریدار ماسک اور دستانوں کا استعمال بھی نہیں کر رہے۔
طارق روڈ پر عیدالفطر کی خریداری میں مصروف خاتون جمیلہ احمد نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا، ”میں نے ماسک نہیں لگایا، مجھے ماسک لگانا یاد ہی نہیں رہا، ہاں البتہ بچوں کو ماسک پہنایا ہے، کچھ نہیں ہوتا، بس ایسے ہی احتیاط کی جارہی ہے، جسے کورونا ہونا ہے، وہ تو ہو کر ہی رہے گا، ویسے میں نے تمام دعائیں خود پر اور بچوں پر پڑھ کر دم کر لیں۔‘‘
اس کے برعکس شازیہ وحید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”میں نے ماسک اور دستانے سب پہنے ہیں، سینی ٹائزر بھی بیگ میں ہے۔ احتیاط اچھی چیز ہے، بازار میں تو سب ہی لوگ ہوتے ہیں اب کیا پتہ کس کو کیا بیماری یا مسئلہ ہے، ہمیں خود ہی اپنی احتیاط کرنا ہوگی، بلکہ میں تو دوسروں سے بھی یہی کہوں گی کہ بازار آئیں تو تمام احتیاط پیش نظر رکھیں، جلد از جلد خریداری کر کے واپس گھروں کو لوٹ جائیں۔‘‘
پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ڈاکٹرز مسلسل سماجی دوری برقرار رکھنے کے ساتھ شہریوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کر رہے ہیں جبکہ حکومت سے بھی لاک ڈاؤن سخت کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سی ای او انڈس اسپتال ڈاکٹر عبدالباری، پی ایم اے کے چیئرمین ڈاکٹر قیصر سجاد اور ڈاکٹر نگہت شاہ سمیت متعدد ڈاکٹرز نے لاک ڈاؤن میں نرمی سے کورونا وائرس مزید بڑھنے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے باوجود بعض شہریوں کا خیال ہے کہ یہ فرضی اعدادوشمار ہیں۔ ساتھ ہی کئی شہریوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی وبا نہیں، بلکہ یہ نزلہ زکام کی ہی ایک شکل ہے، صرف بیرونی مالی امداد کے حصول کے لیے وبا کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جارہا ہے جبکہ شہریوں کی اکثریت مہلک وائرس سے بچاؤ کے لیے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے دکھائی دے رہی ہے۔