کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں مصروف فرانسیسی دوا ساز کمپنی سنوفی کے سربراہ کی جانب سے ایک متنازع بیان کے بعد اب یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ اگر ویکسین تیار ہوگئی تو وہ سب سے پہلے کس ملک کو ملے گی۔
سنوفی کے سربراہ پال ہڈسن نے گزشتہ دنوں بلوم برگ کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ کورونا وائرس کی کامیاب ویکسین کی تیاری کی صورت میں سارے ابتدائی آرڈرز امریکا کو فراہم کیے جائیں گے کیونکہ سب سے پہلے اسی نے کمپنی کو ویکسین کی تیاری کے لیے فنڈنگ کی۔
اس بیان کے بعد فرانس کے وزیراعظم نے کہا کہ کسی بھی کامیاب ویکسین کو برابری کی بنیاد پر ہی تقسیم کیا جائے گا اور اس حوالے سے بحث کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ویکسین کی تقسیم دنیا میں رائج غیرمنصفانہ نظام کو بے نقاب کرے گی۔
دنیا بھر میں اس وقت تقریباً ایک درجن کے قریب کمپنیاں کورونا وائرس کے خاتمے کی ویکسین بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن میں فرانسیسی دوا ساز کمپنی سنوفی بھی شامل ہے۔
کئی ممالک نے کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری اور منصفانہ تقسیم کے لیے 8 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے تاہم امریکا نے ابھی تک حوالے سے کسی بھی فنڈنگ کا نہ تو وعدہ کیا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ویکسین کی تیاری کے لیے اپنے طور پر اقدمات کا اعلان کیا ہے جسے “آپریشن ریپ اسپیڈ” کا نام دیا گیا ہےاور اس حوالے سے دوا ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلن ( جی ایس کے) کے سابق افسر کو اس کام کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
تاہم ، فارن پالیسی میگزین کے مطابق مخبر بتاتے ہیں کہ ایسا کوئی منصوبہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
امریکا کی ویکسین کی تیاری پرکام کرنے والی وفاقی ایجنسی یوایس بائیو ایڈوانسڈ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ رک برائٹ جنہیں گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے عہدے سے ہٹا دیا تھا ، نے امریکی کانگریس کی کمیٹی میں گزشتہ روز ایک بیان بھی ریکارڈ کروایا۔
رک برائٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ امریکا نے ابھی تک اپنی سرحدوں کے اندر بھی ویکسین کی منصفانہ فراہمی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاتھ سے موقع نکل رہا ہے اور اگر اس وبا کی دوسری لہر آئی تو امریکا کو جدید تاریخ کی سیاہ ترین سردیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ رواں سال کے آخر تک کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرلی جائے گی تاہم کئی ماہرین ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔