اِس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن” کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان” انتقامی کارروائیوںجیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔تین مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کا دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1993ء میں اس دن کو آزادی صحافت کا دن قرار دیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق اور ان کی آزادی رائے کے تحفظ اور ایسے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے سچ کی تلاش میں اپنی جانیں گنوا دیں۔اس دن صحافتی تنظیموں کی جانب سے ریلیاں اور تقاریر کی جاتی ہیں۔ کارکن صحافیوں کے لیے ویج بورڈ ایوارڈپر عمل درآمد کی خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں۔صحافیوں کی حالت زار بہتر بنانے کے وعدے وعید کیئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں صحافت کو درپیش حالات ایک الگ ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ حکومتی اشتہارات میں کٹوتی اور عدم ادائیگی کو جواز بنا کر میڈیامالکان کارکن صحافیوںکی کئی کئی ماہ سے واجب ادا تنخواہیںروکے ہوئے ہیں اور ہزاروں صحافیوں کواخبارات کی بندش کا بہانہ بنا کر نوکریوں سے برخاست کر رہے ہیں۔عدم ادائیگی تنخواہ کی وجہ سے ٹینشن اور ذہنی دبائومیںآکر کئی صحافی ہارٹ اٹیک سے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔اکثریت کے گھروں میں کئی ماہ سے فاقے چل رہے ہیں، بچے سکولوں کی فیس ادا نہ کرسکنے کے باعث سکولوں سے اُٹھالیے گئے ہیں۔دوسری طرف حکومت اخبارات کے اشتہارات کی ادائیگی ممکن نہیں بنا رہی اور علاقائی اخبارات کا پچیس فیصد کوٹہ بحال کرنے سے کترا رہی ہے جو ان اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کے معاشی قتل کرنے کے مترادف ہے۔صحافتی عہدیدارحکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروانے یا دبائو بڑھانے کے الگ الگ بولیاں بول رہے ہیں۔پریس کلبوں کی سیاست عروج پر ہے، معلوم صحافیوں کو نامعلوم قرار دے کر عامل صحافیوں کی نا صرف تضحیک کی جارہی ہے بلکہ مضبوط ستونوں کو عمارت کے نیچے سے نکالا جا رہا ہے جس کا خمیازہ انتہائی بھیانک ہو گا۔عہدے داروں اور کارکن صحافیوں کے متحد نہ ہونے کا فائدہ حکومت اور میڈیا مالکان اُٹھا رہے ہیں۔
پاکستان میں اگر آزادی صحافت کی بات کی جائے تو پاکستان میں کئی ممالک کی نسبت صحافت آزاد ہے لیکن یہ اب شتربے مہار بنتی جا رہی ہے۔ ایک صحافی کو صحافتی اخلاقیات کے اصولوں اورمعلومات تک رسائی کے قانون کو ملکی مفاد، ملک و قوم پر اثرات اورشخصی آزادی اظہار کے حوالے سے بہت محتاط ہو کر خبر کو بریک کر نا چاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے کئی نامور صحافی بھی صحافت کی اخلاقیات سے نابلد ہیں اور ایسی بے ہودہ خبریں بریک کرتے ہیں جو ہمارے خاندانی نظام، روایات اور قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہیں۔ صحافی معاشرے کو طاقتور بناتے ہیں ۔ایک کہاوت ہے کہ ”معلومات میں طاقت ہے” اور صحافی آپ کو وہ طاقت دیتا ہے۔ صحافیوں کی آزادی کی جہاں بات کی جار ہی ہے وہیں صحافیوں کے سروس اسٹکچرکی کوئی بات نہ حکومت کرتی ہے اور نہ ہی صحافتی عہدیدار اور مالکان۔ سروس اسٹکچرنہ ہونے کی وجہ سے نہ تو صحافیوں کو ای او بی آئی کی پنشن مل سکتی ہے اور نہ ہی سوشل سیکورٹی کی مراعات اور علاج معالجہ۔ ایف بی آر کو چاہیے کہ کہ وہ صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی بنکوں سے کیے جانے کے حوالے سے قانون سازی کروائے ۔ یوں ایک تو ادا کی جانے والی تنخواہ اورٹیکس ریٹرنز کا معلو م ہو پائے گا اور دوسرا یہ بھی معلوم ہو سکے گاکہ میڈیا مالکان کیا تنخواہ ادا کر رہے ہیں۔نیز اشہتارات کی ادائیگی کو ورکر صحافیوں کی تنخواہ سے مشروط کرنا چاہیے تاکہ صحافی کو پہلے تنخواہ ادا ہو پھر مالکان کو اشتہارات کی ادائیگی ہو۔لیکن اس ضمن میں بدقسمتی کی بات ہے کہ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن صحافیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
آزادی صحافت پر حکومتی پریشر اور صحافیوں کی جاب سیکورٹی کا یہ عالم ہے کہ چند دن قبل اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی مسعود ماجد سید کو ایک بڑے قومی موقراخبار نے سچی خبرشائع کرنے کی پاداش میں نوکری سے برخاست کر دیا ۔مسعود ماجد سید سینئر سٹاف رپورٹر ہے جو کم از کم 30 یا 32 سالوں سے اسلام آباد میں صحافت کرر ہا ہے، اس نے گزشتہ دنوںاپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران 27 اپریل کو پاکستان ریلوے کی 25 مسافر اور دو مال گاڑیوں کی (Low Rates)پر ایک نجی کمپنی کو (Out Source)کرنے کی منصوبہ بندی بارے حقائق پر مبنی ایک خبر فائل کی۔ اس خبر میں ریلوے بورڈ کے چیرمین کی نشاندہی کی گئی کہ وہ اس سارے عمل کو عملی جامہ پہنانے پر تلے ہوئے ہیں اور وزیر ریلوے کو ٹیکنیکی امور سے بے خبر رکھ کر اپنے ان عزائم کی تکمیل کررہے ہیں لیکن یہ خبر شائع ہوتے ہی اخبارکی انتظامیہ نے اس صحافی کو ایک نوٹس جاری کیا اور اگلے ہی لمحے اسے نوکری فارغ کر دیا۔
صحافی وہ طبقہ ہے کہ جوجنگ و جدل، ہنگاموں، آفات، دہماکوں، وبائوں میں بھی اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے فرائض انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اس صحافی کو اگر چار سال ادارہ میں فرائض انجام دینے کے بعد نکالنا ہی تھا تو اخلاقیات اور لیبر قوانین کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسے نوکری سے نکالنے سے پہلے اس کی تمام زیرالتوا تنخواہوں ودیگر واجبات کو ادا کیا جاتا لیکن یہاں تو اخباری مالکان نے مشکل وقت میں اپنے ہی رپورٹر کو بیچ چوراہے کپڑے اتار کر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریلوے کے اس انتظامی اور مالی سکینڈل میں ملوث افسروںکے خلاف انکوائری ہوتی اور غلط کاری پر انہیں سزا ملتی لیکن اخباری مالکان ریلوے انتظامیہ کے ساتھ مل گئے اور غریب رپورٹر کو سولی چڑھا دیا گیا مگر مجال ہے کہ کسی صحافتی تنظیم نے اس نا انصافی اور ظلم پر آواز اُٹھائی ہو ماسوائے نامعلوم صحافیوں کی شناخت کی جنگ لڑنے والے نیشنل جرنلسٹ پینل کے صدر جاوید ملک کے جو اس معاملے کو لے کر میدان عمل میں نکل چکے ہیں۔
یہ امر انتہائی قابل افسوس وقابل مذمت ہے کہ اس رپور ٹر کو کرونا وائرس کی وبا کے دوران اور رمضان کے مقدس مہینے میں نکالا گیا ہے اور اسے گیارہ ماہ یعنی جون 2019 سے بقایا تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں۔ یہ وہ ظالمانہ قدم ہے جو وزیراعظم عمران خان کے اس حکم سے انحراف ہے کہ کرونا وائرس بحران میں کوئی محکمہ اور کوئی ادارہ اپنے کسی بھی ملازم کو نوکری سے فارغ نہ کرے۔لیکن یہاں تو لگتا ہے گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے کہ ناتو میڈیا اداروں کو حکومتی احکامات کا کوئی پاس ہے تو نا ہی حکومتی مشینری اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کی استعداد رکھتی ہے۔ بقول شاعر عادل ابن ریاض
سچ کہنا، لکھنا، بولنا مشکل ہے بڑا عادل دل، زبان، ضمیر کے سُرْخْرُو قَلَم رہیں گے