برلن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں آباد مسلمان اس سال کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عیدالفطر روایتی طور پر منانے سے محروم رہیں گے۔ رمضان کے اختتام پر مسلمانوں کے دو بڑے تہواروں میں سے ایک ’عید الفطر‘ کا تین روزہ تہوار ویک اینڈ سے شروع ہو گا۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کی فیڈریشن ‘اسلام راٹ‘ کے صدر برہان کیسیچی ہیں، جو جرمنی ميں مسلمانوں کے تمام مسالک کی رابطہ کونسل کے ترجمان بھی ہیں۔ اس کونسل کی سرپرستی میں چھ مسلم آرگنائزیشنز کام کرتی ہیں۔ اس سال رمضان اور عید کے تہوار کے بارے میں برہان کسیچی نے کہا، ” کورونا وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، خاص طور سے سوشل ڈیسٹنسنگ یا معاشرتی فاصلہ قائم رکھنے کی، ان کے سبب جرمنی میں مسلمان ذہنی طور پر تیار ہیں کہ وہ ہر سال کی طرح اس بار عید نہیں منا سکیں گے۔‘‘
برہان کسیچی نےمزید کہا، ”اس سال رمضان کے مہینے میں اس طرح کا احساس ہی نہیں ہوا، جیسا ہر سال ہوا کرتا ہے۔ رمضان در اصل برادری اور فیملی کے ساتھ گزارنے والا مہینہ ہوتا ہے۔‘‘ کورونا بحران کی وجہ سے لوگوں کے میل جول پر پابندی ہے اور ابھی چند روز پہلے تک مساجد میں کسی قسم کی عبادات یا اجتماع کی اجازت نہیں تھی۔
جرمنی میں 9 مئی کے بعد سے پابندیوں میں انتہائی محتاط انداز سے نرمی کی گئی جس کے نتیجے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے چند مساجد میں دو سے تین وقت تک کی باجماعت نماز کی اجازت دی مگر حفظان صحت کے انتہائی سخت اقدامات کی يقين دہانی کے ساتھ۔ رواں ہفتے بدھ سے چند مزید مساجد میں نماز اور دعائی اجتماعات کی اجازت مل رہی ہے۔
برہان کسیچی کے بقول مساجد میں حفظان صحت کے قوائد و ضوابط پر بہت اچھی طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ روزے ویک اینڈ سے شروع ہوئے تھے اور ویک اینڈ سے ہی مساجد میں سخت شرائط کے ساتھ 2 سے 3 وقت کی نماز کی اجازت بھی مل گئی تھی۔ تاہم خاندانوں کا مل کر بیٹھنا اور ساتھ روزہ افطار کرنا، یہ سب فی الحال بعید از امکان نظر آ رہا ہے۔ بہت سے خاندانوں نے ویڈیو کال کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا طریقہ کار اپنایا ہے لیکن برہان کسیچی کہتے ہیں کہ خاندان اور برادری کے مابین حقیقی ملاقات اور مل کر روزوں اور عید کی خوشیاں منانے کا یہ کوئی مناسب متبادل نہیں ہے۔
جرمنی کے چھوٹے بڑے شہروں میں متعدد مساجد موجود ہیں جہاں ہر سال عید کی نماز ہوا کرتی ہے۔
کسیچی کا کہنا ہے کہ روزوں کے دوران کھانے پینے کے بارے میں سوچنا اصل کام نہیں ہے بلکہ دن بھر روزے میں انسانوں کو زندگی کے مقصد اور مفہوم کے بارے میں غور و فکر کرنی چاہیے۔ شام کا وقت کنبے اور قریبی لوگوں کے ساتھ گزارنے کا ہوتا ہے تاہم اس ميں بھی روحانیت اہم ترین حصہ ہونا چاہیے۔ دن کے وقت دوران روزہ تو مذہبی ضابطوں پر ہر کوئی عمل کرتا ہے لیکن شام میں بغیر کہیں آئے گئے اور کسی کے ساتھ وقت گزارے، کچھ ادھورا سا لگتا ہے۔ برہان کیسیچی کے مطابق کورونا بحران نے ایک سبق دیا ہے وہ یہ کہ اس بحران کے خاتمے کے بعد تمام انسانوں کو اپنے معاشرتی تعلقات استوار اور بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رمضان کا اختتام اور عید کا تہوار مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اس کا موازنہ مسيحيوں کے تہوار کرسمس سے کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر رمضان کا اختتام ایک بڑے فیملی عشائیے پر ہوتا ہے۔