رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مکمل ہونے کو ہے اور اب عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔ہر جانب عید کی تیاریاں عروج پر ہیںبازاروں کی رونقیں بڑھ گئی ہیں۔عید پرہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھے کپڑے ،جوتے پہنیں اور اچھے اچھے کھانے کھائیںکیونکہ عید خوشیوں کا دن ہے۔مگر ہم نے کبھی سوچا کہ آخر خوشی کس بات کی …..؟دراصل عید کا دن انکے لیے خوشی کا دن ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کو پایا ہے۔اس ماہ مبارک کے تمام روزے رکھے ،اس ماہ مقدس کا احترام کرتے اور اپنے نفس پر قابو پاتے ہوئے ہر بُرے کام سے بچتے رہے۔پہلے عشرے میں رحمت،دوسرے میں مغفرت اور تیسرے عشرے میں دوزخ سے نجات حاصل کرنے کی دعائیں مانگتے رہے ۔پھرجب عید کی رات(چاند رات)کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال پر انعام دے تو اُن کے روزں،دعائوں اور دیگر عباداتوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لے۔ یہ عید کا دن اُن کے لیے واقعی خوشی اور اطمینان کا دن ہے کیونکہ وہ اپنے رب کو راضی کرنے اور اپنی بخشش و مغفرت کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اب وہ واقعی ہی خوشی منانے کے مستحق ہیں۔ اسی حوالے سے ایک واقعہ نقل کرتا جاوں کہ حضرت وہب بن منبہ کو عید کے دن روتے ہو ئے دیکھ کر کسی نے پوچھایہ تو خوشی اور زینت کا دن ہے اور آپ رو رہے ہیں؟ حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا بے شک یہ خوشی کا دن ہے لیکن اُن کیلئے جنہوں نے روزے رکھے عبادات کی اور ان کے روزے عبادات اللہ نے قبول کر لی ہو۔اس واقعہ سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ عید کادن بے شک خوشی کا دن ہے لیکن صرف اُن کے لیے جوماہ رمضان المبارک میں اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔لیکن ہمارے ہاں سب ہی عید پر خوب خوشیاں مناتے ہیںچاہے احترا م ماہ رمضان اور روزے رکھنے کی توفیق نصیب ہوئی بھی ہو یا نہیں ۔ماہ رمضان شروع ہوتے ہی عید کی تیاریاں شروع ہو جا تی ہیں جو چاند رات تک بھی مکمل نہیں ہو تیں۔بلکہ شوال کا چاند نظر آتے ہی لوگوں میں افرارتفری پھیل جاتی ہے۔
سب لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ چاند رات تولیلتہ الجائزہ (انعام کی رات )ہے۔اس رات ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جانا ہے اورجائزہ لیا جائے گا کہ کیا ہم نے ماہ رمضان کا حق ادا کیا یا نہیں کیا؟ کیا ہم نے رمضان کے روزوں میں احکام الہی پر عمل کیا یا نہیں کیا؟ کیا ہم نے روزہ کی حالت میں بدگوئی، فضول گوئی،جھوٹ، غیبت اور ہر طرح کی برائی سے پرہیز کیایا نہیں؟ تو آج کی رات ہمیں اللہ کی بارگاہ میںرمضان المبارک میں ہونے والی برائیوں ،کمی کوتاہیوں پر معافی مانگنا اوراپنی ٹوٹی پھوٹی عبادتوںپر اللہ کو راضی کرناہے لیکن شیطان کو چونکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے اس لیئے اسکی فضیلت سے محروم کرنے کے لیے ہمیں عید کے جشن میں مصروف کردیتا ہے ۔ہم بھی عید کی رات اور دن میںمختلف قسم کے گناہوں میں مبتلاہو جاتے ہیںجبکہ عیدالفطر درحقیقت یوم الجائزہ اور یوم الانعام ہے کیونکہ اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو انعام و اکرام، اجرو ثواب اور مغفرت و بخشش کی نویدسناتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب عیدالفطر کی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلة الجائزہ (یعنی انعام و اکرام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔
وہ زمین پر آکر تمام گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے (جسے جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے) پکارتے ہیں: اے امت محمدۖ! اُس ر ب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے”۔لیکن ہم عید کی خوشی شاید احکام الٰہی ہی بھول جاتے ہیں۔عید پرخوشی کا ہرگز اب یہ مطلب نہیں بنتا کہ جو دل چاہے وہ کریں دین اسلام کے احکامات کو بھول جائیں اور ساتھ ہی ساتھ ان غریبوں،مفلسوں کو بھی بھول جائیں جو عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔عیدالفطر کا یہ تہوار وسیع پیمانے پر اخوت،بھائی چارے کا درس بھی دیتا ہے۔
دین اسلام میںخیر خواہی کا یہ عالم ہے کہ اللہ نے حکم دیا کہ عید کی نماز پڑھنے سے پہلے گھر کے سبھی افراد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیاجائے تاکہ غریب بھی اپنی ضروریات پوری کرے اور عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں ۔ ایک دفعہ حضرت علی کولوگ خلافت کے زمانے میں عید کی مبارک دینے گئے تو دیکھا کے سوکھے ٹکڑے کھا رہے ہیں۔آنے والے شخص نے کہا حضرت!آج تو عید کا دن ہے یہ سن کر حضرت علی نے سرد آہ بھری اور فرمایا؛جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کو یہ ٹکڑے بھی میسر نہیں تو ہمیں عید منانے کا کیوں حق حاصل ہے۔پھر فرمایا عید تو ان کی ہے جو عذاب آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے چھٹکارا پاچکے ہیں۔ان واقعات سے واضح ہے کہ عید کی خوشیاں ہماری عبادات کی قبولیت سے مشروط ہیں اور ہمیں خوشی کے اس موقع پر غریب اور نادار لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے ۔ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں،یتیموںکی مدد کرکے اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔