واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سائنسدان کورونا کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بمشکل نصف امریکی عوام کو یہ ویکسین میسر ہو پائے گی۔
کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لیے دنیا بھر کے طبی محققین نے جس سر دھڑ کی بازی لگائی ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں عام شہری بہت زیادہ پرامید نظر نہیں آتے۔ ویکسین کی تیاری اور دستیابی کے بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس اور NORC سینٹر برائے عوامی امور کی طرف سے کروائے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق امریکی شہریوں کی محض نصف آبادی کو ویکسین ملنے کی امید ہے۔
سروے کے مطابق 31 فیصد امریکی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا انہیں یہ ویکسین میسر ہوگی۔ جبکہ سروے میں حصہ لینے والے ہر پانچ میں سے ایک شہری نے کہا کہ وہ ویکسین لگوانے سے انکار کرے گا۔ 10 میں سے 7 امریکیوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ویکسین کی سیفٹی کے بارے میں تحفظات ہیں۔
طبی ماہرین پہلے سے اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے آئندہ جنوری تک 300 ملین ویکسین کی دستیابی میں ناکامی کے بعد کیا ہوگا۔ نیشول ٹینیسی میں قائم وانڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ماہر متعدی امراض ڈاکٹر ولیم شافنر کے مطابق،” بہترہوتا کہ کم تعداد میں ویکسین کا وعدہ کرکے زیادہ تعداد فراہم کی جاتی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک غیر متوقع بہت بڑی تعداد ہے۔ ڈاکٹر ولیم کے بقول،”ہمیں کسی بھی ویکسین کے لیے ایک بہت بڑے ڈیٹا بینک کی ضرورت ہوگی تاکہ سیفٹی کی یقین دہانی کرائی جا سکے۔”
ڈاکٹر فرانسس کولنز امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائرکٹر ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ کووڈ انیس کی ویکسین کی ٹیسٹنگ کا ایک ماسٹر پلان تیار کر رہا ہے۔ لاکھوں افراد پر اس ویکسین کا ٹیسٹ یا تجربہ کیا جائے گا، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ واقعی کارآمد اورمحفوظ ہیں۔
ڈاکٹر فرانسس کولنز کہتے ہیں،”میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ سوچیں کہ ہم وقت، محنت اور رقم کی بچت کر رہے ہیں کیونکہ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔” انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں وسائل کو بہتر طریقے سے خرچنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے کام کی معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
کولنز نے مزید کہا کہ یقینی طور پر بدترین چیز یہ ہوگی اگر ہم جلد بازی میں ایک ایسی ویکسین تیار کر لیں جس کے بعد میں اہم سائیڈ ایفکٹس یا منفی اثرات سامنے آجائیں۔
تازہ سروے میں جن لوگوں نے ویکسین کی تیاری اور اس کے فوری استعمال کے حق میں رائے دے وہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جن کے لیے خود ان کی اپنی، ان کے کنبے اور پھر ان کی برادری کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہے۔ آسٹن ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ برانڈن گریز نے کہا ، ”میں اسے یقینی طور پر استعمال کروں گا۔ ایک باپ کی حیثیت سے جو اپنے کنبہ کی دیکھ بھال کرتا ہے میرے ليے ضروری ہے کہ جیسے ہی یہ ویکسین دستیاب ہو میں ویکسین لگواؤں تاکہ میں اپنے خاندان کی بہتر حفاظت کر سکوں۔‘‘
امریکا میں کووڈ انیس کے باعث اموات میں سب سے زیادہ تعداد سیاہ فام اور لاطینی امریکیوں کی ہے۔
کورونا وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ معمر افراد، دل کے مریضوں، ذیابیطس اور دیگر دائمی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو ہے۔ سروے کے مطابق 60 سال سے بڑی عمر کے 67 فیصد افراد نے کہا کہ وہ ویکسین لگوانا چاہتے ہیں جبکہ ویکسین کے حق میں نسبتاً کم عمر کے افراد کا تناسب چالیس فیصد نظر آیا۔
امریکا میں کووڈ انیس کے باعث اموات میں سب سے زیادہ تعداد سیاہ فام اور لاطینی امریکیوں کی ہے، جس کی بظاہروجہ صحت کی سہولیات کی غیر مساوی فراہمی ہے۔ اس کے باوجود ویکسین کے بارے میں سروے کے نتائج سے پتہ چلا کہ 25 فیصد افریقی امریکی، 37 فیصد لاطینی امریکی اور 56 فیصد سفید فام افراد یہ ویکسین لگوانا چاہیں گے۔