اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) عید کی چھٹیوں کے دوران پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی نفری بھی کم ہی نظر آئی اور روزانہ ٹیسٹنگ کی تعداد بھی پچھلے ہفتے کے مقابلے میں کم ہو کر تقریبا نصف ہو گئی۔ اس کے باوجود بدھ کو پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب پہنچ رہی ہے جبکہ اموات بارہ سو سے زائد ہو چکی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ کیسز صوبہ سندھ میں سامنے آئے ہیں، جس کے بعد ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب، پھر خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہے۔
عید سے پہلے طبی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ نقل و حرکت پر پابندیاں اٹھانے کے نتائج جون کے پہلے ہفتے سے آنا شروع ہوں گے۔ وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان میں لوگوں کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا، جس کا ڈر تھا، اس لیے ملک کی معیشت کا پہیہ جام کر کے لوگوں کی مشکلات بڑھانے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اس ہفتے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے خبردار کیا کہ کیسز اور اموات کی تعداد میں اگر اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو حکومت دوبارہ ’’سخت لاک ڈاؤن‘‘ نافذ کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”اگر یہ رجحان جاری رہا تو ہم پھر سے سخت لاک ڈاؤن نافذ کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ لوگوں میں اب یہ سوچ فروغ پا رہی ہے کہ جیسے ملک سے وبا ختم ہو چکی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہو گی کیونکہ اگر لوگوں نے ’’حفاظتی اقدامات کو درگزر کیا، تو یہ بحران ایک بہت بڑے المیے میں بدل سکتا ہے۔‘ ‘ وفاقی حکام کے مطابق پاکستان میں اب تک کورونا کے انیس ہزار سے زائد مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ حکام کے مطابق اس وقت بھی بیشتر انفیکٹڈ کیسز کو مرض کی ہلکی پھلکی علامات ہیں اور امید ہے کہ وہ بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔
تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کا رش اسی طرح چلتا رہا تو حالات بے قابو ہو سکتے ہیں کیونکہ حکومت نے کیسز کی انتہا تک پہنچنے سے پہلے ہی لاک ڈاؤن ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
طبی ماہرین کے مطابق ان حالات میں اب لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں اور بلاوجہ گھر سے نکلنے سے گریز کریں۔