بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے تناظر میں نافذ کردہ پابندیوں کو شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کو پولیس نے تیئس مئی کو حراست میں لیا تھا تاہم اگلے دن عدالت نے ان کی ضمانت پر رہائی کی منظوری دے دی۔ ان دونوں طلبا نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں ‘پنجرہ توڑ نامی عورتوں کی احتجاجی مہم میں شرکت کی تھی۔ جج نے ان کی ضمانت پر رہائی اس بنیاد پر دی کہ ان دونوں نے صرف احتجاج میں شرکت کی اور کسی پر تشدد کارروائی میں شریک نہ ہوئیں۔ پھر اچانک رہائی کے اگلے ہی دن انہیں قتل، قتل کی کوشش، ہنگامہ آرائی اور سازش کے الزامات پر گرفتار کر لیا گیا۔ ‘پنجرہ توڑ گروپ نے طلبا کی حراست کو ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ برابری اور لوگوں کے وقار کے تحفظ کے لیے جد و جہد جاری رہے گی۔
بھارتی پارلیمان میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) پچھلے سال دسمبر میں منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کو محدود وقت میں بھارتی شہریت دیا جا سکے گا۔ بھارت میں کئی حلقوں کا ماننا ہے کہ مذکورہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا باعث بن سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے پیش کردہ اس قانون کی پارلیمان سے منظوری کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارتی پولیس نے فروری سے اب تک سینکڑوں طلبا کو حراست میں بھی لیا ہے، جو اس قانون کی مخالفت میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش دکھائی دیے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن شبنم ہاشمی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”حکومت اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے، بالخصوص کورونا وائرس کے پھیلا کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈان میں۔
دیگر کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت مظاہرین کی گرفتاری کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے سے متعلق قانون (UAPA) بروئے کار لا رہی ہے۔ اسی قانون کے تحت پچھلے ہفتے آصف اقبال تنہا نامی ایک طالبعلم کو حراست میں لیا گیا۔ بھارت میں یو اے پی اے کا قانون تفتیشی ایجنسیوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مشتبہ افراد کی دہشت گردوں کی طرح تفتیش کر سکیں۔ اس قانون کے تحت مجرم ثابت ہونے والوں کو سات سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔
سیاسی کارکن یوگیندرا یادوو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت میں اس وقت انصاف کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ملکی نظام کو سب سے بڑی، ملکی آئین کے تحفظ کے لیے اور مکمل طور پر امن احتجاجی تحریک کو نظر انداز کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔