ایک عید یہ تھی جو کچھ دن پہلے ہم نے منائی اور ایک عید وہ تھی جو کئی سال پہلے تک ہمارے بڑے منایا کرتے تھے۔۔آج کل۔۔ یہ کیا عید ہے۔۔؟اصل عید تو وہی تھی جو ہمارے بڑے اور بزرگ اپنے ساتھ ہی کہیں قبروں میں لیکر چلے گئے۔ہماری والی عید کا تو صرف نام ہوتا ہے اوران کی عیدکاتوپوری دنیامیںدھوم دھام ہوتاتھا۔ہمیں اچھی طرح یادہے جب بھی وہ والی عیدآتی تھی توچھوٹوں سے لیکربڑوں تک سب اس کے رنگ میں اس طرح رنگ جاتے تھے کہ پھرہرطرف عیدہی عیدہوتی تھی۔آج کل توایک عیداورایک اس کی چاندرات ہے اس وقت تو عیدمیں مہینے دومہینے کاٹائم ہوتااوراس سے پہلے گائوں اورعلاقے بھرمیں اس کے استقبال کی تیاریاں شروع ہوجاتی تھیں۔
گویا عید سے مہینہ پہلے چاندراتوں کاسلسلہ شروع ہوجاتاتھا۔خواتین گھروں میں دیواروں کی لپائی اورچوناوغیرہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیتی تھیں جبکہ بزرگ اپنے اورہمارے جیسے بچوں کے لئے نئے کپڑے۔جوتے۔ٹوپیاں اورکھیلونے لانے کے لئے بازاروں کی طرف نکل پڑتے۔اس کام میں پھران کے کئی دن صرف ہوجاتے۔کیونکہ کبھی کپڑاملتاتوجوتے رہ جاتے ۔کبھی جوتے ملتے توکپڑے رہ جاتے ۔بہرحال بازارسے کپڑالانے کے بعدوہ پھرہم اپنے ہاتھوں سے درزی تک پہنچاتے تھے۔
گائوں میں اس وقت درزی کوماسٹر بولاجاتاتھا ۔ہمارے گائوں جوزسے ملحقہ کھڈلونامی گائوں میں اس وقت جہانزیب نام کے ایک ماسٹرتین چاردیہات یاگائوں کے مشترکہ درزی ہواکرتے تھے۔جواب اللہ کوپیارے ہوگئے ہیں۔عیدسے مہینہ دوپہلے اس کی دکان جواس کے گھرکے ہی ایک کونے میں بنی تھی کپڑوں کے کئی ڈھیرلگ جاتے تھے۔جہانزیب ماسٹرناپ لینے کے بعدعدالتی مقدمات کی طرح مختلف تاریخیں دے کرناپ والی فائیلیں بندکردیتے ۔کپڑوں کی سلائی کاان پراتنابوجھ اوررش کایہ عالم ہوتاکہ مقررہ تاریخ پرجب ہمارے جیسے بچے کپڑے لینے کے لئے ان کی دکان پرپہنچ جاتے تووہ اکثرکو آگے سے یہی کہتے کہ (ماشو) کوکہناکہ مشین خراب تھی تین دن بعدکپڑے تیارہوجائینگے اوریوں کئی بدقسمتوں کواگلی پیشی کاپروانہ مل جاتا۔جس دن کپڑے تیارہوتے اس دن گویاعیدسے پہلے ہماری عیدہوتی۔دکان سے کپڑے لیکرہم پھرراستے میں ہی اسے اوپرسے نیچے تک ٹٹولتے کہ سامنے جیب ہے کہ نہیں۔۔؟کالرلگایاہے یانہیں۔۔؟کپڑے اگرہمارے معیاراورمزاج کے مطابق نہ بنے ہوتے توہم ماسٹرجی کوگالیاں دینے کے ساتھ رونا۔۔چیخنااورخودکوپیٹناشروع کردیتے۔کیازبردست وقت اورکیسے عظیم لوگ تھے وہ۔۔دوسری طرف گھروں کی لپائی اورچوناوغیرہ کاکام عروج پرہوتا۔گائوں کی جوان لڑکیاں اورخواتین دیواروں کی لپائی کے لئے دوردرازسے اپنے سروں پرسرخ اورسفیدمٹی برتنوں میں بھرکر لاتیں۔اس سفرمیں ہم سارے بچے ان کے ساتھ ہوتے۔
محرم اورغیرمحرم کااس وقت گائوں میں کسی کو کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔لڑکی یاکوئی خاتون راستے پرجارہی ہومجال ہے انسان کیا۔۔؟ کوئی جنگلی جانوربھی ان کی طرف مڑکردیکھے۔۔گائوں کی ہرلڑکی جوجوان ہوتیں وہ ہماری سگی بہنوں اورشادی شدہ خواتین ہماری مائوں میںشمارہوتی تھیں۔مردوں میں اکثربابے۔چاچے اورمامے ہوتے تھے۔کپڑوں کی تیاری اورگھروں کی سجاوٹ کے بعدآخری مرحلہ ہم بچوں کی عیدسے ایک دودن پہلے نہانے کاہوتاتھااوریہی وہ مرحلہ تھاجوان تمام مراحل میں ہم پرگراں گزرتا۔مائوں اوربڑی بہنوں کے ہاتھوں نہانے کے وقت جب ہمارے سروں پرصابن مل دیاجاتاتوہم آنکھوں پرہاتھ رکھ کرمچھلیوں کی طرح تڑپنااورروناشروع کردیتے۔چاندرات یاعیدرات کوپھر کسی ایک گھرکے اوپرگائوں کے سب بچے اوربچیاں ایک جگہ جمع ہوکرقوالی اورناچ گاناشروع کردیتتے۔عیدرات پھرہم سب جلدی سوجاتے کیونکہ فجرکی نمازسے پہلے ہمیں اٹھناہوتا۔رات سونے سے پہلے تمام گھروں میں خواتین ۔بچے اوربچیاں ہاتھوں پرمہندی لگاناکبھی نہ بھولتے ۔فجرکے لئے پھرجونہی آذان دی جاتی ہم آنکھوں کوملتے ہوئے فوراچارپائی سے چھلانگ لگادیتے۔کبھی کبھارہاتھوں کے ساتھ ہمارے چہرے کے گال بھی مہندی سے سرخ ہوئے ہوتے دکھائی دیتے کیونکہ رات کوسوتے وقت ہاتھوں کوچہرے سے دوررکھنے کادھیان ہی نہ ہوتا۔عیدکے تمام مراحل میں مہندی والے ہاتھوں کودھوناسب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ ہوتا۔کرچ کرچ کرہاتھ کی انگلیاں تھک جاتیں لیکن کم بخت مہندی ہاتھ سے جانے کانام ہی نہ لیتی۔منہ اورہاتھ دھونے کے بعدہم بھی پھربڑوں کے پیچھے پیچھے مسجدتک پہنچ جاتے۔
شہروں میں توعیدکی الگ نمازہوتی ہے لیکن گائوں میں آج بھی فجرکی نمازکے بعدعیدشروع ہوجاتی ہے۔یہاں شہروں میں توعیدکی نمازکے بعدلوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں لیکن گائوں میں اس وقت یہ سسٹم بھی نہیں تھااب کا پتہ نہیں۔اس وقت لوگ نمازپڑھ کرفوراًمسجدسے نکل کرگھرکی راہ لیتے۔گھرمیں ماں باپ اوردیگربزرگوں کوسلام کرنے کے بعدہم بچے پڑوس کے گھرسے سلامی کاآغازکرتے۔گھرگھرحاضری لگانے کے بعدمغرب و مشرق یاپھرشمال وجنوب میں گائوں کے آخری کونے میں قائم آخری گھرپرہماری سلامیوں کااختتام ہوتا۔اس سفرکے دوران کہیں چائے بسکٹ توکہیں دہی اورچاول کے ساتھ ہماری تواضع ہوتی۔مولاناخالدقاسمی جورشتے میں میرے خالہ زادہیں ان کی والدہ مرحومہ اللہ ان کی قبرپرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ۔آمین ۔انہوں نے عیدکے دن ہمیں دہی اورچاول کھلائے بغیرکبھی نہیں چھوڑا۔ ان کاگھرتقریباًہماراآخری سٹاپ ہوتاتھا۔نودس بجے کے قریب سلامیوں سے فارغ ہوکرپھرہم سب بچے دکانوں کارخ کرتے۔اس وقت گائوں میں دویاتین ہی دکانیں ہوتی تھیں۔ان دکانوں سے پٹاخے۔کھیلوناپستول اورکچھ ٹافیاں لیکرہم سارے بچے پھرایک جگہ جمع ہوجاتے۔
پٹاخوں کوپھٹاتے ہوئے اکثرہمارے کپڑے دامن کے قریب یاآستینوں کے آس پاس سے پھٹ جاتے ۔کئی بارتوہمارے نرم ونازک ہاتھ اورچہرے بھی پٹاخوں کے ساتھ پٹاخے بن جاتے۔مطلب عیدکادن گھرسے دورکھیل کوداورلڑائی جھگڑوں میں ہمیں خوشیوں پرخوشیاں دے کرگزرجاتا۔پھردوسرے اورتیسرے دن تک ہم عیدعیدکھیل کرخوب انجوائے کرتے۔اب نہ وہ بچے ہیں اورنہ ہی وہ عید۔۔برسوں بعدعیدمنانے کے لئے گائوں جاناہواتوبچوں کی مظلومیت اورعیدوالے دن اداسی اوربے بسی دیکھ کرروناآیا۔آج واقعی گائوں اورشہرمیں کوئی زیادہ فرق باقی نہیں رہا۔جس طرح نام کی عیدآج شہرمیں ہوتی ہے اسی طرح اب گائوں میں بھی محض ایککوٹہپوراکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔گائوں میں آج نہ وہ ماسٹرہیں اورنہ ہی سرخ وسفیدمٹی والے وہ گڑھے۔
سچ تویہ ہے کہ گائوں کے محرم بھی اب مجرم بن چکے ہیں۔گائوں کی وہ چاچیاں۔مامیاں اورخالائیں اب میڈم اورچاچے۔مامے میڈونابن چکے ہیں۔سلامی کی جگہ موبائل نے لے لی ہے۔گھروں کی لپائی اورعیدکے لئے پکوان کی تیاری یہ بھی اب قصہ پارینہ بن چکاہے۔شہرکی بیکریوں سے خریدی جانے والی کلودوکلوبسکٹ اوربرگرپرشہروں کی طرح اب گائوں میں بھی عیدکادن آسانی کے ساتھ گزرجاتاہے۔گھروں میں اب نہ کہیں دہی کے مٹکے ہیں اورنہ ہی دہی چاول کھانے کے لئے کسی کے پاس کوئی ٹائم۔اب گائوں میں بھی شہروں کی طرح ہرشخص اپنی ایک الگ دنیابساکراس امیدپربادشاہ بن بیٹھاہے کہ کوئی اس کو سلام اورعیدکی مبارکباددینے آئے گا۔جہاں ہرشخص بادشاہ بنا بیٹھاہووہاں پھرنہ عیدہوتی ہے اورنہ ہی کسی کی دید۔۔ایسے میں پھرہم کیسے اورکہاں سے وہ عید لائیں۔۔؟