شکاگو: اگرچہ مشرقی طب میں دماغ کا تعلق معدے سے بھی بتایا جاتا ہے لیکن جدید طب نے اسے ایک عرصے سے نظر انداز کیا ہے۔ اب بہت سی دریافتوں کے ساتھ پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ معدے کی ہاضماتی نالی میں پائے جانے والے خردنامیے اور بیکٹیریا ایک دماغی پٹھوں کی کم یاب بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔
نیچر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہمارے معدے اور آنتوں پائے میں جانے والے بیکٹیریا ہماری دماغی اور اعصابی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک عصبی نسیجی (نیوروویسکیولر) بیماری ’کے ورنس اینجیوما‘ اور معدے کے جرثومے کے درمیان تعلق کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں۔ ’کے ورنس اینجیوما‘ کو مختصراً سی اے بھی کہا جاتا ہے۔
اس سے قبل صرف جانوروں یعنی چوہوں پر ہی اس کے مطالعے کئے گئے تھے جو انسانوں میں ایک نایاب مرض کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں انسانی رضاکاروں پر بعض تجربات کئے گئے ہیں جن کی بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے بانی عیصان اود ہیں جنہوں نے اس سے پہلے چوہوں پر تجربات کئے تھے۔ عیصان کہتے ہیں، ’ اس تحقیق کے بہت بلند اطلاقات ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ عین انسانوں کے لیے بھی یہ طریقہ کار درست ہے۔ عیصان کا تعلق یونیورسٹی آف شکاگو سے ہے۔
کے ورنس اینجیوما بیماری میں دماغ اور حرام مغز میں خون کی نالیوں کے گچھے سے بن جاتے ہیں لیکن یہ مرض اتنا عام نہیں اور پوری دنیا میں صرف 0.2 فیصد آبادی کو ہی یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے خون کی خلافِ معمول نالیاں بننے لگتی ہیں۔
اس کے نتیجے میں مریض کو جھٹکے لگتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی ہے اور اعضا کے ساتھ یادداشت اور نظر بھی بری طرح کمزور ہوجاتی ہے۔ اس کی تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 100 افراد کے فضلے کے نمونوں کا مقابلہ کیا جو سی اے مرض کی دو مشہور بیماریوں کے شکار تھے۔
اس کا موازنہ کرنے کے لیے 250 صحتمند رضاکاروں کے فضلے کے نمونے جمع کے گئے ہیں جنہیں سی اے کی بیماری لاحق نہ تھی۔ تیجے کے طور پر دیکھا گیا کہ تمام 100 مریضوں کے جسم میں خردنامیے اور بیکٹیریا وغیرہ کی ترتیب خاصی حد تک یکساں تھی۔
ماہرین نے بتایا کہ بالخصوص مریضوں کی آنتوں میں Odoribacter splanchnicus بیکٹیریا کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ جبکہ دیگر اقسام کے بیکٹیریا بہت کم تھے جن میں Faecalibacterium prausnitzii اور Bifidobacterium adolescentis سرِ فہرست ہے۔
واضح رہے کہ طبِ مشرق معدے سے کئی امراض کو وابستہ کرتے ہیں اور اب سائنسی طور پر اس کی حقیقت سامنے آرہی ہے گزشتہ کئی برس سے آنتوں اور معدے سے کئی دماغی امراض بشمول شیزوفرینیا اور پارکنسن کا تعلق بھی دریافت ہوا ہے۔