ایک محفل دعا میں ایک خاتون نے اپنے محفل جمعہ میں نہ آنے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں بھئی میں تو جمعے کی نماز کے بعد کسی خاص الخاص کے گھر بھی نہیں جاتی ، چاہے کوئی بھی، کتنا بھی ، ضروری پروگرام ہی کیوں نہ ہو۔ پوچھا کیوں؟ تو بولیں کیونکہ میں اس روز اتنے اتنے ہزار بار فلاں فلاں وظیفہ پڑھتی ہوں اس سے ہفتے بھر میں کیئے ہوئے سارے گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے ۔۔۔ہم نے پوچھا کہ گناہ تو آپ نے اللہ کے حضور نہیں بندوں کے ساتھ کیئے تو اللہ پاک اپنے بندوں کے معاف کیئے بنا اگر وہ گناہ اتنی آسانی سے معاف فرما دیتا ہے تو پھر اپنے ہی کلام پاک میں بار بار حقوق العباد کی تکرار کیوں کرتا ہے ؟ کیا ضرورت ہے انسانوں کی، رشتوں کے حقوق کی بات کرنے کی، اسے ادا کرنے کے لیئے سخت تاکید کرنے کی؟
یہ صرف ایک واقعہ تھا مثال کے طور پر، ورنہ جہاں دیکھیں گھر، باہر ،سوشل میڈیا ہر جگہ پر ہر منٹ میں ایسے ایسے وظائف بانٹے جا رہے ہوتے ہیں کہ اس کے عوض نعوذ باللہ نہ تو حقوق اللہ کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی حقوق العباد کو کسی کھاتے میں گننے کی ۔ قتل کریں ، یتیموں کا مال کھائیں ، بیواؤں کی زندگی عذاب کر دیں ، دوسروں کی عزتیں پامال کر دیں ، چوری کریں ، ڈاکہ ڈالیں، جھوٹ بولیں غرضیکہ کوئی بھی گناہ کر لیں ۔ اور بے فکر ہو جائیں۔ آپ کی معافی تلافی کے لیئے ایک ہزار ایک من گھڑت کہانیوں کے ساتھ وظائف کے نام پر بے فکری پیکچز موجود ہیں ۔ جنت تو آپ کے ہی انتظار میں تیار کی گئی تھی کہ کب آپ اپنے وظائف کے زور پر اسے فتح کرتے ہیں ۔ کیونکہ اعمال کے زور پر اسے پانے کا دم خم تو اب کسی نام نہاد مسلمان میں شاید رہا نہیں ۔ تو آپ بھی اللہ کے ناموں کا ورد اس سے اپنی ذہنی طاقت میں اضافے ، اچھے نصیب کی دعا، اچھے اعمال کی توفیق طلب کرنے کے بجائے یہ ہی سوچ کر، کر رہے ہیں کہ اس کے زور پر سات خون آپ پر معاف ہو جائینگے تو آپکو اشد ضرورت ہے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کی اور ایک بار قران پاک مکمل ترجمے اور تفسیر کیساتھ سمجھ کر پڑھنے کی، اسی طرح ، جسطرح ایک غیر مسلم اسلام میں داخل ہونے سے پہلے اسے سمجھتا ہے۔
اپنی زبان میں سمجھ کر اس پر یقین حاصل کر لیتا ہے تو پھر قران کو اسلام کا دروازہ سمجھ کر ، اس میں داخل ہو کر، فلاح کا گھر یعنی اعمال سے حاصل کردہ جنت پا لیتا ہے ۔ اصل جنت جس میں اسے دنیا کا سکون بھی حاصل ہو جاتا ہے اور آخرت کی فلاح بھی ۔ کبھی غور کیجیئے ۔ اس طرح سے مسلمان ہوئے لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھیئے گا (جنہوں نے اسلام کسی سے نکاح کرنے کی غرض سے اور نہ ہی کسی مالی مفاد میں قبول کرنے کا ڈرامہ کیا ) اور سیکھیئے گا کہ سکون کیا ہوتا ہے ، کامیابی کسے کہتے ہیں اور مسلمان کیسا ہوتا ہے ۔ ہم جیسے تارکین وطن کم از کم اس لحاظ سے تو بیحد خوشنصیب سمجھتے ہیں خود کو ، کہ ہمیں ایسے پرسکوں نو مسلمان چہروں کو دیکھنے اور ان سے ملنے اور ان کی عملی زندگیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع کبھی نہ کبھی مل ہی جاتا ہے ۔
کاش ہمارے ممالک میں ہم پیدائشی مسلمانوں کے اندر بھی ہمیں ان نومسلموں جیسا عملی اسلام دیکھنا نصیب ہو سکے ۔ جو وظائف کے زور پر اپنے لیئے جادوئی جنت حاصل کرنے کے لیئے اپنے دن اور اوقات مخصوص نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے اعمال سے اللہ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششیں پیش کر دیتے ہیں اور اپنے کردہ ہی نہیں ناکردہ گناہوں پر بھی اپنے آنسو نچھاور کرتے ہیں ۔ کفارے ادا کرتے ہیں ، تلافیاں کرنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ۔ تو اللہ ان سے پیار کیوں نہ کرے ؟ اللہ اپنی اس مخلوق سے محبت کیوں نہ کرے جو اس کے احکامات بجا لاتی ہے ؟ اور اس سے محبت کرنے پر کہاں مجبور ہے کہ وہ نافرمانوں کو بنا اعمال صالح کے جنتوں میں داخل کر کے صالحین کی دل آزاری کرے ؟ جبکہ وہ خود فرماتا ہے کہ ان نافرمانوں کیلیئے دردناک عذاب ان کا منتظر ہے ۔
سو وظیفے بانٹ کر اور وظیفے پڑھنے میں جو دنوں اور گھنٹوں آپ نے خود کو پابند کرنا ہے یقین کیجیئے اس سے بیسویں حصے کے وقت میں بھی اگر اسکے بندوں کی خیر اور بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لینگے تو آپکو اصلی جنت کے لیئے نقلی اسباب کبھی کھوجنے نہیں پڑیں گے ۔ اصل منزل تک پہنچنے کے لیئے اصل اور درست راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ خوابوں اور خیالی راستوں کے ذریعے حاصل ہونے والی جنت کا سفر آنکھ کھلتے ہیں ہوا ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جسطرح خیالی پلاو سے پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہوائی قلعے میں رہا جا سکتا ہے۔
علماء کرام اور مولانا حضرات بھی اگر وظائف بانٹنےکے بجائے لوگوں پر ان کے رشتوں اور انسانیت کے حوالوں سے اپنی ذمہ داریاں ، فرائض اور اللہ تعالی کے ان سے متعلق سچے احکامات پہنچانا شروع کر دیں ۔ اسے اپنے خطبات کا محور بنا لیں تو اس سے انکی عزتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گا بلکہ لوگوں کو اپنے دین کی سمجھ بھی حاصل ہو سکے گی ۔ دین کو وظائف میں بانٹ کر لوگوں کو آپ اسی طرح سے اعمال صالح سے دور کر رہے ہیں جیسے ایک نشہ بیچنے والا، انسان کو عملی زندگی سے دور کر دیتا ہے ۔ خدارا خواب بیچنا بند کر دیجیئے ۔ اب اور کتنا تباہ ہونا رہ گیا ہے۔