کرونا شرونا حقیقت یا ڈرامہ

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : روہیل اکبر

کرونا وائرس کو ہم کیا سمجھتے ہیں اسے ایک حقیقت مانتے ہیں یاپھر ابھی بھی ہم اسے ایک ڈرامہ ہی تسلیم کیے ہوئے ہیں اس پر آج تفصیلی بات ہوگی مگر اس سے پہلے میں وزیراعظم عمران خان انکی پوری ٹیم بلخصوص وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار،وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان،سیکریٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور، موجودہ ڈی جی پی آراسلم ڈوگر اور لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کا شکر گذار ہوں کہ جو مشکل وقت میں ایسے صحافیوں کا سہارا بنے جو فرنٹ لائن پر کام کرتے ہوئے کرونا وائرس کا شکار ہوئے انہیں پنجاب حکومت نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے اس سے نہ صرف صحافی برادری میں حکومت کے لیے جذبہ خیر سگالی پیدا ہوا ہے وہی پر ان تمام صحافیوں میں بھی کام کا جذبہ پیدا ہوا ہے جو اس وقت فیلڈ میں کام کر رہے کہ کہ خدانخواستہ انہیں کچھ ہوا تو حکومت انکے ساتھ کھڑی ہوگی اب آتے ہیں عوام کی طرف کہ انکی نظر میں کرونا وائرس کیا ہے کیونکہ ملک میں کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تباہی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی جو لوگ پہلے اسے مذاق سمجھتے تھے اب انہیں بھی کسی حد تک یقین کامل ہو تا جارہا ہے کہ یہ واقعی ایک وبا ہے اور جان لیوا بھی مگر مجھے ابھی بھی حیرت ہوتی ہے کہ جب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کرونا شرونا کچھ نہیں صرف حکمرانوں نے پیسے اکٹھے کرنے کے لیے ڈھونگ رچایا ہوا ہے ایک اور افواہ بھی پھیلائی جارہی ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو زبردستی کرونا کا مریض ظاہر کرکے انہیں موت کی وادی میں دھکیلا جارہا ہے۔

جبکہ کچھ لوگ یقین کی حد تک یہ باتیں کرنے میں مصروف ہیں کہ طبعی موت مرنے والوں کو ہسپتال والے زبردستی کرونا وائرس کا مریض ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لواحقین کے نہ ماننے پر پیسوں کا لالچ دیا جاتا ہے اور پھر لاکھوں روپے میں ہسپتال کا عملہ مردہ شخص کی لاش خریدنے کی کوشش کرتا ہے کچھ لوگ اسے چین کی طرف سے چھوڑا ہوا وائرس کہتے ہیں بعض لوگ امریکہ کا چھوڑا ہوا فتنہ سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ روس کی طرف سے پیدا کردہ بیماری کہتے ہیں اور تو اور ہمارے اکثر پڑھے لکھے سیاستدان،مذہبی رہنما کرونا وائرس کو ابھی تک ڈرامہ کہہ رہے ہیں میں جب بھی کسی پریس کانفرنس میں جاتا ہوں تو ان قائدین سے یہ لازمی پوچھتا ہوں کہ کرونا آپکی نظر میں ڈرامہ ہے یا حقیقت ہے،امریکہ کو چھوڑا ہوا وائرس ہے،چین کی پیدا کردہ بیماری ہے تاکہ وہ آنے والے دنوں میں سپر پاور بن جائے،وبا ہے بیماری ہے یا پھر کیا تو تو ان پریس کانفرنس کرنے والے اکثر قائدین کے خیال میں کرونا وائرس کچھ نہیں صرف ہمیں ڈرانے دھمکانے اور حکمران اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ڈرامہ رچا رہے ہیں مگر میں چند ایک ایسے افراد کو بھی جانتا ہوں جو آج سے کچھ دن پہلے تک کرونا وائرس کی بدولت ہونے والی ہلاکتوں اور اس بیماری میں مبتلا افراد کو محض حکمرانوں کی طرف سے پیدا کردہ ایک بحران سمجھتے تھے مگر جیسے ہی کرونا وائرس نے انکے خاندانوں میں پنجے گاڑے تو پھر ان پر حقیقت کھیلی اور اب وہ افراد گھر کے دروازہ سے منہ تک باہر نہیں نکالتے ورنہ اس سے پہلے انکی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے اپنے کاروبار کریں گھروں سے باہر گھومیں اور ابھی بھی ہماری اکثریت کرونا وائرس پر یقین نہیں رکھتی ہماروں بازاروں آج بھی ویسی ہی بھیڑ ہے جیسے عام دنوں میں ہوتی تھی۔

اگر یہ کہوں کہ عام دنوں کی نسبت اب لوگ زیادہ باہر نکلتے ہیں تو ایک حقیقت ہے ابھی کل کی بات ہے سندھ حکومت کے ایک صوبائی وزیرمرتضی بلوچ، خیبر پختون خواہ کے سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی جمشید کاکا خیل سمیت چار اراکین اسمبلی کروناوائرس سے جان کی بازی ہار گئے لاہور میں اس وقت کرونا پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے پولیس انسپکٹر عامر ڈوگر اسی مرض سے جان کی بازی ہار گئے اور اس وقت تک ڈی آئی جی آپریشن سہیل اختر سکھیرا اور ایس ایس پی لاہور فیصل شہزاد سمیت لاہور پولیس کے تقریبا دو سو ملازمین اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں اسکے ساتھ ساتھ ایک اور دل دہلا دینی والی خبر کہ اس وقت لاہور میں جی ہاں صرف لاہور میں تقریبا سات لاکھ کرونا کے متوقع مریض ہیں اس کا مطلب ہے کہ لاہور کا کوئی گلی،محلہ اور بازار کرونا سے محفوظ نہیں ہے اور آنے والے دونوں میں یہ خوفناک وبا اپنا کیا رنگ دکھاتی ہے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں آج جو اسے ایک ڈرامہ کہہ رہے ہیں کل کو انکے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہیں بچے گا اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ضد اور آنا کو ایک طرف رکھ کر کسی اور کے لیے نہیں بلکہ اپنے آپ کے لیے اپنے بچوں کے لیے اور اپنے خاندان کے تحفظ اور انکی حفاظت کے لیے مان جائیں کہ کرونا وائرس واقعی ایک وبا ہے اور حقیقت ہے اور ہماری اب تک کی لاپرواہی کی وجہ سے تقریبا 90ہزار افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں اور تقریبا17سو افراد جان کی بازی ہار گئے ہمارے تاجر اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں زبردستی مارکیٹیں کھولنا چاہتے ہیں خود بھی ماسک استعمال نہیں کرتے اور دوسروں سے فاصلہ بھی نہیں رکھتے۔

کل کو اگر خدانخواستہ کرونا وائرس کی وبا ہمارے قابوں سے باہر ہوتی ہے تو یہی افراد حکومت پت تنقید کرینگے کہ عمران خان نے لاک ڈاؤن سخت کیوں نہیں کیا کرفیو ں کیوں نہیں لگایا کیا ہم لوگ صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں ملک میں مارشل لا تو نہیں لگا ہوا ناں بلکہ ایک جمہوری حکومت ہے جس نے عوام کی اجتماعی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوتے ہیں مجھے یاد ہے کہ شروع شروع کے دنوں میں جب کرونا وائرس نہ ہونے کے برابر تھا اس وقت ہماری پولیس،رینجر اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جانب سے بار بار یہ میسجز چلائے گئے کہ ہم آپ کی حفاظت کے لیے باہر سڑکوں پر ہیں اور آپ ہمارے لیے گھروں پر رہیں مگر ہم نے کسی کی ایک نہ سنی اور آج ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھر رہے ہیں مگر اسکے باجود اسے ہم صرف ایک ڈرامہ سمجھ رہے ہیں ہمارے تمام سیانوں کو چاہیے کہ وہ کرونا وائرس کو ڈرامہ تصور کرنا چھوڑ دیں اور اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے پیروکاروں کو بھی اسکی حقیقت سے آگاہ کریں تاکہ ہم اس موذی مرض سے جان چھڑوا سکیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200