سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، جنہیں ایم بی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے، اپنے حریفوں اور ناقدین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، خود شاہی خاندان کے افراد بھی ایسی جارحانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
رواں برس شروع کے مہینوں میں انہوں نے قریب 15 ہزار افراد پر مشتمل اپنی وسیع تر فیملی کے متعدد ارکان کو گرفتار کروایا تھا۔ ان میں سے ایک گرفتاری کا معاملہ بین الاقوامی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کی رہائی کے لیے ایک مہم چلائی گئی ہے، جنہیں جنوری سن 2018 میں اپنے والد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کی وجوہات کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا ہے۔ 37 سالہ نوجوان بنیادی طور پر فلاحی کاموں میں آگے آگے ہوتا تھا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے اپنی دولت کا ایک حصہ پسماندہ ممالک میں فلاحی مقاصد کے لیے عطیہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھتے نہ ہی سیاست میں آنے کے خواہش مند ہیں۔ تاہم امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں انہوں نے کانگریس کے ڈیموکریٹک رکن ایڈم شیف سے ملاقات کی، جو امریکی صدر ٹرمپ کے ناقد ہیں۔ ادھر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی تعلقات ہیں۔
اب دو بین الاقوامی مہموں کے ذریعے شہزادہ سلمان بن عبد العزیزکو آزاد کروانے کی کوششں کی جا رہی ہیں۔ ایک مہم اس تجارتی لابی اور کمپنی نے شروع کر رکھی ہے، جو واشنگٹن میں واقع ہے۔ اس کا نام سونوران پالیسی گروپ ‘ایس پی جی‘ ہے۔ اے ایف پی کی اطلاعات کے مطابق یہ مہم گرفتار شہزادے کے پیرس میں رہائش پذیر ایک دوست کے ایما پر چلائی گئی۔ اس نے ایس پی جی کے ساتھ یہ مہم چلانے کا ایک معاہدہ کیا تھا اور اس کے لیے 20 لاکھ امریکی ڈالر بطور فیس ادا کیے۔ اس لیے اس مہم کو امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کی حکومتوں کے ساتھ بھی مربوط کیا گیا ہے۔
ایس پی جی کے ساتھ ساتھ یورپی پارلیمنٹ بھی شہزادے کو آزاد کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کا ایک وفد شاہی خاندان کے متعدد افراد کی رہائی کے لیے بات چیت کی غرض سے رواں سال فروری میں ریاض گیا تھا۔ جزیرہ نما عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے یورپی پارلیمنٹ کے وفد کے وائس چیئرمین مارک ترابیلا نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس اقدام کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔
سعودی سلطنت اس وقت ایک شدید معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہی ہے۔ معاشی طور پر تیل کی قیمت میں کمی اور کورونا وائرس کے خلاف لڑائی نے اسے متاثر کیا ہے۔ یمن میں مداخلت اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر بھی حکومت کو بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اے ایف پی نے ان دونوں مہموں کے اقدامات اور ان کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ، ”آخر کار اپریل کے آخر میں ریاض حکومت نے عدالتی اصلاحات منظور کیں۔ دوسرے اقدامات کے علاوہ کوڑے مارنے کی سزا ختم کرنے کا اعلان اور جرائم کے مرتکب 18 سال سے کم عمر افراد کی پھانسی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘
اگر ولی عہد محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی جانشین بنتے ہیں تو وہ ریاست کی سربراہی کرنے والی نئی نسل کے پہلے بادشاہ ہوں گے۔ یعنی ریاست کے بانی عبد العزیز ابن سعود کے بیٹوں کی پیروی کرنے والے اور ان کے پوتوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے۔ برلن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم یورپی سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق ”ای ایس او ایچ آر‘‘ کے چیئرمین علی اڈوبیسی کے بقول دوسرے امیدواروں کے خلاف فتح حاصل کرنے کے بعد ایم بی ایس کو اب اپنی طاقت کو مستحکم کرنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو انٹرویو میں اڈوبیسی نے کہا ، ”ان کے کزنز میں متعدد خواہشمند افراد شامل تھے۔ اب انہیں ان کے خلاف اپنا دفاع کرنا ہو گا۔‘‘
اسی وجہ سے ایم بی ایس ناقدین اور ممکنہ حریفوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کر رہے ہیں۔ نومبر 2017 ء کے آغاز میں انہوں نے شاہی خاندان کے ایک درجن افراد ، وزراء اور تاجروں کو گرفتار کیا۔ الزامات کے مطابق وہ بدعنوانی میں ملوث تھے۔ گرفتار افراد کو ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا تھا۔ تاہم چند ہفتوں بعد انہیں 86 ارب ڈالر کی ادائیگی کے عوض رہا کر دیا گیا۔
جمال خاشوقجی کا قتل ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے بڑی مشکلات کا سبب بھی بنا۔
گرفتاریاں جاری ہیں
رواں سال شاہی خاندان کے کئی افراد کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ مثال کے طور پر شہزادہ احمد ، موجودہ بادشاہ کا بھائی، ساتھ ہی ساتھ محمد بن نایف اور جانشینی کی دوڑ میں ایم بی ایس کا مقابلہ کرنے والے نایف کے مشیر سعد الجبری کو بھی دو بیٹوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ الجبری نے اپنی رہائی کے بعد کینیڈا میں جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو بھی سعودی عرب سے نکالنا چاہتے تھے لیکن سعودی حکام نے ان دونوں پر سفری پابندی عائد کر دی۔
سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے شہزادہ فیصل بن عبداللہ السعود کو مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ قبل ازیں نومبر 2017 ء میں بھی انہیں گرفتار کیا گیا تھا لیکن اس وقت جلد ہی رہا بھی کر دیا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق شہزادہ فیصل نے گرفتاری سے قبل مملکت کے سیاسی نظام پر عوامی تنقید کی تھی۔
سعودی عرب کے روایتی دوست ملک امریکا میں بھی خاشوقجی کے قتل کے بعد سعودی حکمرانوں پر کھلی تنقید کی گئی۔
علی اڈوبیسی کہتے ہیں ، ”ایم بی ایس کو معلوم ہے کہ شاید ہی ان کے ارد گرد کوئی ایسا شخص ہے، جن پر وہ مکمل بھروسہ کر سکتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ وفاداری اور اخلاص پر مبنی تعلقات کی ایسے ماحول میں توقعات مشکل معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
حالیہ مہینوں کی گرفتاریوں کو بین الاقوامی سطح پر انتہائی مایوسی کے ساتھ دیکھا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطی کے نائب ڈائریکٹر مائیکل پیج نے کہا ، ”تنقید کی لہروں کے باوجود سعودی حکام کا غیر قانونی سلوک بدستور جاری ہے۔”