ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے یہ پر کیف، پر فریب،ناچتی گاتی اور ہستی بستی دنیا بدل رہی ہے لیکن ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو رہا۔خوشی ، غم ،رنج اور مسرتوں سے لے کرنشست و برخاست اور ملنے ملانے کے انداز اور رشتوں کے تقدس تک سب کچھ طاقِ نسیاں ہو چکا ہے لیکن ہم ہیں کہ ا بھی تک اس کی حقیقی گہرائی کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستان میں تو ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کورونا واقعی کوئی خطرناک وباء ہے یا یہ ایک خود تراشیدہ افسانہ ،ڈرائونی کہانی،گہری سازش یا پھر کوئی دیو مالائی داستان ہے ۔پاکستان میں عوام کورونا کو ترقی یافتہ ممالک سے پیسے اینٹھنے کا ایک حربہ سمجھتے ہیں اس لئے اسے سنجیدہ لینے سے احتراز برت رہے ہیں۔
پتہ نہیں انھیں کہاں سے یہ خبر مل گئی ہے کہ ہر موت کے ساتھ حکومتِ پاکستان کو ہزروں ڈالرز کا چیک مل جاتا ہے اس لئے کسی بیماری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں جانے والے اکثر مریضوں کو کورونا کی فہرست میں ڈال کر اپنے پیسے کھرے کر لئے جاتے ہیں۔میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یہ زبان زدہ خا ص و عام ہے اور بچے بچے کی زبان پر ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ یہاں جس کسی کو بھی دیکھو وہ کورونا کا مذاق اڑا رہا ہے۔اب ایسے غیر یقینی حالات میں اگر کوئی حکومتی ایس اوپیز پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا مذاق اڑا یا جاتا ہے۔چھڈو جی جو ہونا ہے وہ دیکھا جائے گا ۔ بازاروں میں بے تحا شہ رش بھی اسی ذہنی سوچ کا عکاس ہے۔بازاروں میں عوام یوں بے دھڑک شاپنگ کر رہے ہیں جیسے وہ کسی میلے ٹھیلے میں آئے ہوئے ہیں۔بازاروں میں کھوے سے کھوا چل رہا ہے اور کوئی اس کا نوٹس لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔لاپرواہی کی انتہا تھی جو عید پر شاپنگ کے دوران دیکھنے میں آئی۔ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور کسی سے کوئی تعرض نہیں کر رہے تھے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے حکمران خود لاک ڈائون کا مذاق اڑتے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے وزیرِ اعظم کے کان میں جس کسی نے بھی یہ فسوں پھینکا ہے کہ کو رونا سے نہیں بلکہ بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہے تو عمران خان نے اس سوچ کو اپنا نعرہ بنا لیا ۔وہ لاک ڈائون لگانے کی بجائے لاک ڈائون کھولنے کے حامی ہیں جس کا خمیازہ اب ہم نے بھگتنا شروع کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں پچھلے کچھ دنوں سے کورونا مریضوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے کو مل رہا جبکہ باقی دنیا میں مریضوں کی تعدادکم ہو رہی ہے۔ جس کی بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں کی نا قص پالیسیاں ہیں ۔ایک کمیشن اس پر بھی تو بیٹھنا چائیے کہ عوامی زندگیوں کو موت کی وادی میں کون جان بوجھ کر دھکیل رہا ہے۔؟شوگر مافیا اور بجلی مافیا تو پاکستان خزانہ سے کھیلتے ہیں لیکن وہ لوگ جو انسانی جانوں کو موت کی آغوش میں دھکیلتے ہیں ان کا احتساب کون کریگا؟ انسان کے پاس اس کی سب سے قیمتی متاع اس کی اپنی جان ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ قیمتی متاع کورونا جیسی موذی وباء کے ہاں گروی رکھ دی گئی ہے۔ دانشور ، میڈیا، قانون دان اور ڈاکٹرز کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں کہ پاکستان ایک سخت لاک ڈائون کا متقاضی ہے لیکن حکمران ہیں کہ ایسی کسی بات کو سننے کیلئے تیار نہیں۔ان کی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ ہے کہ عوام کورونا سے نہیں بلکہ بھوک سے مر جائیں گے حالانکہ ہم نے کسی کو بھوک سے مرتے نہیں دیکھا۔پاکستان کے عوام ایسے سنگدل نہیں ہوئے کہ ان کے سامنے کوئی بھوک سے مر جائے اور وہ ٹس سے مس نہ ہوں۔ہماری قوم کا ہر فرد ایک ایسا درد مند دل رکھتا ہے جو دوسروں کی تکلیف کے احساس سے تڑپ اٹھتا ہے ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ مخیر حضرات آزمائش کی ان جان لیوا گھڑیوں میں محروم طبقات کی امداد کیلئے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں اور عوامی خدمت سے اپنے رب کو راضی کر کے دلی مرادوں سے اپنی جھولیاں بھرتے ہیں لہذا بھوک سے مرنے کا فلسفہ سطحی اور غیر حقیقی ہے۔،۔
وہ تمام ممالک جہاں پر کورونا کو سنجیدہ نہیں لیا گیا انھوں نے بہت زک اٹھائی ہے۔اٹلی ،سپین،برطانیہ ،برازیل،ترکی اور امریکہ اس کی زندہ شہادتیں ہیں۔برطانوی وزیرِ اعظم بورس یلسن کو اپنے غیر سنجیدہ طرزِ عمل کی وجہ سے کورونا جیسی موذی وباء کا شکار ہو نا پڑا ۔یہ تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ گے ۔ریاست نے تو ان کا متبادل بھی تیار کر لیا تھا ۔ان کی موت کا اعلان ہونے ہی والا تھا کہ کورونا نے ان پر اپنے موذی پنجے قدرے نرم کئے اور وہ یوں زندگی جیسی نعمت سے دوبارہ سرفراز ہو گے۔اس کے بعد برطانیہ میں سخت لاک دائون ہوا اور پھر اموات کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی۔اب وہاں پر لاک ڈائون میں نرمی کی جا رہی ہے کیونکہ حکومت نے حفاطتی تدابیر سے کورونا کو بے اثر کر رکھا ہے۔امریکہ میں بھی ایک غیر سنجیدہ انسان کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہے جس کی نا قص پالیسیوں کی وجہ سے امریکی عوام کو جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ڈولند ٹرمپ کھلے عام کورونا کا مذاق اڑ ا تے تھے اور پھر اس وباء نے جو حشر امریکہ کا کیا وہ بیان سے باہر ہے۔امریکہ کی جتنی سبکی کورونا وباء سے ہوئی کسی دوسری شہ سے نہیں ہوئی ۔کورونا وباء نے چین جیسے ملک کی اہمیت کو جس طرح دو چند کردیا ہے اس سے یہ اندیشہ سچ ثابت ہو رہا ہے کہ چین اس دنیا کی سپر پاوربننے جا رہا ہے۔چینی شہر ووہان سے کورونا کے ظہور سے دنیا جس طرح انجانے ہیجان میں مبتلا ہوچکی ہے اس سے اس کے چاروں جانب خوف کا غلبہ ہے لیکن ایسے ابتر حالات میں چینی قیادت کی بالغ نظری نے جس طرح اپنی دھاک بٹھائی وہ قابلِ تحسین ہے ۔کورونا کا حل ہی سخت لاک ڈائون تھا اور یہی چینی قیادت نے کیا ۔ چینی قیادت کے بر وقت فیصلوں سے دنیا نے سکھ کا سانس لیا۔دنیا کو ووہان کی صورت میں ایک ایسی مثال نصیب ہو گئی جو باقی ماندہ دنیا کو موت کی آغوش میں جانے سے بچا نے کی سکت رکھتی ہے ۔چین کا ہمسایہ ہونے کی جہت سے ہمیں تو سب سے پہلے اپنے دوست کے نقوشِ پا پر چلنے کی کوشش کرنی چائیے تھی تا کہ ہم اس موذی وباء کا شکار ہونے سے بچ جاتے لیکن بد قسمتی سے ہم نے اپنے دوست کے تجربے کے بالکل بر عکس عمل کیا۔دوست تو شفاء یاب ہو گیا لیکن ہم اس موذی مرض کے وائرس کا شکار ہوتے گئے اور بڑی تیزی سے ایک ایسے اندھے کنویں میں گر نے جا رہے ہیں جہاں موت ہمہ وقت محوِ رقص ہے۔کیا ہم نے کبھی دوسروں سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کرنی ہے یا پھر اپنی ہی دھن میں مست رہنا ہماری خصلت ہے؟
دنیا کے تجربات سے مستفیذ ہونے والے ہی آخرکار کامران ٹھہر تے ہیں لیکن جو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہتے ہیں آخر کار نقصان اٹھاتے ہیں۔کیا ہر بات میں ہٹ دھرمی اور پھر خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھنا ہماری نفسیاتی کمزوری ہے یاہم دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم آزادانہ فیصلے کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں؟ خدا را اس قوم پر رحم کیجئے اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے رہنے کی بجائے عقل و شعور سے کام لے کر عوام کو موت کی آغوش میں جانے سے بچائیے کیونکہ قدرت نے فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کو تفویض کر رکھا ہے۔ بر وقت فیصلہ سازی لیڈر کی اصل پہچان ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری لیڈر شپ اس وصف سے بالکل کوری ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال