جدید سائنس، ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی برکت سے اب تو شہروں کے ساتھ دیہات میں بھی چار سو ترقی کے ڈنکے بجتے ہیں ۔پہلے جب ترقی صرف شہروں تک محدودتھی اس وقت دیہات اورگائوں میں ہیئر ڈریسر اور حمام شاپ کی بجائے ایک نئی ہوتے تھے جسے گائوں اوردیہات میں (گلابی)کے نام سے پکاراجاتاتھا۔شہروں کے ساتھ اب گائوں دیہات میں ہیئر ڈریسر اور حمام شاپس کی بھرمارکی وجہ سے اب تووہ گلابی نہ جانے کونسے گلاب کے پھول بن گئے ہیں لیکن اس وقت پوراگائوں اوردیہات اس ایک گلابی پرآبادہوتے تھے۔سرکے بال بنانے کے ساتھ پورے گائوں کے ختم خیرات اورشادی بیاہ کے کام وہ ایک گلابی اکیلے کیاکرتے تھے۔ایک پائوں پروہ سیکنڈمیں پورے گائوں کے رائونڈلگاتے اورکسی کوکبھی شکوہ اورشکایت کاکوئی موقع نہ دیتے۔ہمارے گائوںکے گلابی عبدالرحمن کاکامرحوم اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
عوام کی انہوں نے بہت خدمت کی وہ جب بڑھاپے کی وجہ سے ریٹائرڈہونے لگے توانہوں نے دورپارکے ایک رشتہ دارکواپناجانشین بناناچاہا۔ان کی اپنی کوئی اولادتونہیں تھی اس لئے انہوں نے اس رشتہ دارکوبلایااورانہیںسارے معاملات سمجھانے شروع کر دیئے ۔ان دنوں اتفاق سے عیدکی آمدآمدتھی۔گائوں میں اس وقت یہ ہوتاتھاکہ عیدکے لئے چھوٹے بڑے سب بال بنایاکرتے تھے۔چونکہ عیدکی آمدتھی اس لئے اس نئے نئی (گلابی)کے آنے کے ساتھ ہی گائوں کے نمبردار کا بچہ ان سے بال ٹھیک کروانے کے لئے پہنچ گیا۔وہ کوئی نئی توتھانہیں اسے زبردستی لایاگیاتھا۔اس نے پہلے انگریزی بال بنانے کے چکرمیں اس بچے کے بالوں میں کئی موٹروے بنائے۔جب دیکھاکہ یہ اچھانہیں لگ رہاتوپھربلڈوزرکی طرح پورے سرپراستراپھیرکر بالوں کی جھنجھٹ سے ہی اس بچے کی جان چھڑادی۔کافی عرصے بعداپنے سرپرتازہ تازہ لینٹردیکھ کربچہ کبھی سرپرہاتھ پھیرتااورکبھی آنسوصاف کرنے کے لئے آنکھوں کوملتارہا۔یہ بات جب گائوں کے نمبردارتک پہنچی تووہ آگ بگولہ ہوگئے۔بچہ ہویابڑا۔۔؟عیدسے پہلے اپنے سرپرلینٹرکون ڈالتاہے۔اس سے پہلے کہ نمبرداراپنے بچے کی طرح اس نام کے نئی کوبھی گنجاکرتے۔
زبردستی میں بنائے گئے اس نئی نے حالات کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے فوراًبھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔وہ صاحب پھرنئی بنے یانہیں۔۔؟اس کاتومجھے نہیں پتہ۔لیکن میں آج جب وزیراعظم عمران خان اوران کے کارناموں کودیکھتاہوں تومجھے فوراًنام کے وہ نئی یادآجاتے ہیں ۔2018کے الیکشن میں 22کروڑعوام نے میاں نوازشریف،آصف علی زرداری، مولانافضل الرحمن،سراج الحق اوردیگرکی پارٹیوں کومستردکرکے تحریک انصاف کوصرف اس لئے ووٹ دیئے کہ عمران خان اقتدارمیں آکر71سال سے ملک میں جاری لوٹ مار،کرپشن اوراندھیرنگری کوختم کرکے نہ صرف عوام کے مسائل ان کی دہلیزپرحل کریں گے بلکہ ملک اورقوم کوبھی ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن کردیں گے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی اس نام کے نئی (گلابی)کی طرح 22کروڑعوام کے لئے اب تک صرف نام کے وزیراعظم ثابت ہورہے ہیں ۔موجودہ حکومت کے کارناموں اوروزیراعظم عمران خان کی بطورحکمران نااہلیت یانئی قسم کی قابلیت کودیکھ یوں لگتاہے کہ کہیں اس صاحب کوبھی ہمارے اس صاحب کی طرح کوئی زورزبردستی ملک کاحکمران بنایاگیاہے۔ 20ماہ میںتوبچہ بھی اچھاخاصاچلناپھرناشروع کردیتاہے مگرانصافی حکومت جس کی عمراب 22ماہ سے بھی زیادہ ہونے کو ہے مگراس کے باوجوداس نے ابھی تک چلناپھرناتودورہلنابھی شروع نہیں کیا۔وہ لوگ جوکہتے تھے کہ پی ٹی آئی حکومت آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی چوروں،لٹیروں اورکرپشن وکمیشن کومنوںمٹی تلے دفن کرکے دھوم مچادے گی ۔وہ جوچلتے پھرتے بھڑکیں ماراکرتے تھے کہ ملک کے جو 200ارب ڈالرباہرپڑے ہوئے ہیں۔انصافی حکومت پیدائش کے اگلے دن وہ 200ارب ڈالر باہرسے لاکرسوارب دنیاکے منہ پرمارے گی اورسوارب عوام پرخرچ کرے گی۔آج وہ عجوبے اوربڑھکی مار منظرسے غائب باالکل غائب ہیں۔22ماہ میں نہ وہ دوسوارب ڈالرباہرسے آئے نہ سوارب ڈالر کسی نے دنیاکے منہ پرمارے اورنہ ہی سوارب کسی ظالم نے عوام پرخرچ کیئے بلکہ ان بائیس مہینوں کے دوران تومہنگائی،غربت،بیروزگاری،چینی ،آٹابحران اوربجلی وگیس بلوں کی مدمیں غریب عوام کی جیبوں سے الٹا مفت میں اربوں روپے نکالے گئے۔
جن پچاس لاکھ نوکریوں کے وعدے اوروعیدیں کی گئیں ان کابھی توکوئی پتہ نہیں چلاالبتہ پہلے سے نوکریوں پرلگے ہزاروں اورلاکھوں لوگوں کے منہ سے روزگارکوضرورچھیناگیا۔وہ الیکشن سے پہلے ڈی چوک اورانتخابی جلسوں میں روزجوایک کروڑگھربنائے جاتے تھے کراچی سے گلگت اورکاغان سے چترال تک ان کابھی توکوئی نام ونشان نہیں ملاالبتہ عمربھرکی کمائی اورجمع پونجی سے بننے والی غریبوں کی بے شمارجھونپڑیاں اس بے مثال حکومت اورتاریخی عجوبوں کی نگرانی میں تجاوزات کیخلاف آپریشن کے نام پرملیامیٹ ضرور کی گئیں۔اقتدارمیں آنے سے پہلے جن چوروں،ڈاکوئوں اورلٹیروں کوپھانسی پرچڑھایاجاناتھاوہ توپھانسی پرنہیں چڑھے البتہ غریب عوام کوبھوک،افلاس اورفاقہ کشیوں کی سولی پرضرورلٹکایاگیا۔جن کے پیٹ پھاڑکرقومی خزانے سے لوٹی گئی جو دولت ان سے برآمدکرنی تھی ان سے توایک رویپہ بھی برآمدنہیں کیاگیاالبتہ عوام کے پیٹ کاٹ کرانہیں پائی پائی کامحتاج ضروربنایاگیا۔وہ جس انصاف کوعام اوراحتساب کوسرعام کرناتھانہ وہ انصاف عام ہوااورنہ ہی وہ احتساب سرعام بلکہ الٹااس ملک کی گلیوں ،محلوں اوراداروں میں بے دردی کے ساتھ انصاف اورمیرٹ کاگلہ گھونٹاگیا۔ماضی قریب میںانصاف کے سائے تلے کفایت شعاری کے موضوع پرہونے والی تقریروں میں جس پرائم منسٹرسائیکل کی ہرجگہ گونج سنائی دیتی تھی اس تاریخی سائیکل کاکوئی ایک پرزہ بھی تواس ملک میں نظرنہیں آیاالبتہ بنی گالاسے وزیراعظم ہائوس تک ہیلی کاپٹروں کی سپیشل پروازیں سب نے ضرور دیکھیں۔
وزیراعظم ہائوس اورگورنرہائوسزسمیت جن تاریخی عمارتوں میں یونیورسٹیاں اوردیگرتعلیمی ادارے قائم کیئے جانے تھے وہاں تو کوئی کالج ۔ کوئی یونیورسٹی اور کوئی طالب علم کسی نے نہیں دیکھاالبتہ ٹک سٹارجیسے کنجرہرکسی نے ناچتے ،کودتے اوراچھلتے ہوئے ضروردیکھے۔ریاست مدینہ کے جوسپنے اورخواب قوم کودکھائے گئے اس ریاست مدینہ والاکوئی ایک کام توکہیں نظرنہیں آیاالبتہ ریاست مدینہ کی آڑمیں ختم نبوت پرکھل کرحملے اورقادیانیت نوازی میں حدسے گزرنے کوہرکسی نے بارباردیکھا۔ان پڑھے لکھے ظالموں سے تووہ ان پڑھ اورجاہل نئی (گلابی)توسودرجے بہترتھاجنہوں نے ایک بچے کے سرپرلینٹرڈالنے کے بعدکم ازکم اوروں کی جان توبخش دی ۔یہ ظالم توہزاروں اورلاکھوں غریبوں کودیوارسے لگانے کے بعدبھی ان کی جان نہیں چھوڑرہے۔حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ملک میں مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری آخری حدوں کوچھورہی ہے۔کل تک جوآئی ایم ایف پرلعنت بھیجتے تھے آج وہ آئی ایم ایف کے دیوتائوں کے سامنے دوزانوں بیٹھ کراس کی پوجاکررہے ہیں۔آئی ایم ایف کے اشاروں پراب تک غریبوں کاکچومرنکال کراہم قومی اداروں کاستیاناس کردیاگیاہے۔صحت،تعلیم،واپڈاشاپڈایہ توچھوٹے محکمے ہیں ان ظالموں نے تولوہے اورسٹیل کوبھی کہیں کانہیں چھوڑا۔سٹیل ملزپران کے وارکودیکھ کریوں لگ رہاہے کہ انہوں نے کہیں گلشن کومکمل طورپراجاڑنے کی کوئی قسم کھائی ہوئی ہے۔اللہ خیرکرے آئی ایم ایف کے اشاروں پرناچنے کے اورکون کون سے ثمرات،برکات اور فوائد سے اس ملک کے غریبوں کومنہ کڑواکرناپڑے گا۔ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچااور انصاف کی نظروں سے اگردیکھاجائے تویہاں ہرشاخ پرآلوبیٹھاہے۔معلوم نہیں انجام گلستان کیاہوگا۔۔؟