پٹرول بحران: تاریخ کے اوراق پلٹئے

Petrol Crisis

Petrol Crisis

تحریر : نجیم شاہ

آیئے تاریخ کے چند اوراق پلٹتے ہیں۔ زیادہ دُور نہیں بس گزشتہ حکومت سے ہی شروع کرتے ہیں۔ سال 2015ء اور مہینہ جنوری کا تھا۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کر دی۔ پٹرول سستا ہونے کے بعد اس کی طلب بہت بڑھ گئی جبکہ رسد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ملک کے طول و عرض میں عوام گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں پٹرول ڈلوانے کے لئے خوار ہوتے رہے۔ ایک بڑی تعداد پٹرول پمپوں پر شاپرز، بوتلیں اور گیلن لئے کھڑی دکھائی دیتی کہ کسی طرح لٹر، دو لٹر پٹرول مل جائے۔پٹرول پمپوں پر دھکم پیل اور جھگڑے بھی معمول بن چکے تھے۔

کسی خوش قسمت کو تھوڑا بہت پٹرول مل جاتا تو کوئی گھنٹوں کھڑا رہنے کے بعد بھی ناکام واپس لوٹتا۔ حکومت اسے اپنے خلاف سازش قرار دیتی جبکہ عوام اسے حکومت کی کی نااہلی اور ناکامی تصور کرتے۔دو سال بعد ستمبر 2017ء میں دوبار ہی ایسا بحران آیا۔ پٹرول نایاب، بیشتر پمپ بند جبکہ جو تھوڑے بہت پٹرول پمپس کھلے رہتے وہاں نہ صرف لمبی قطاریں ہوتیں بلکہ پٹرول بھی بلیک میں فروخت ہوتا۔ عوام اپنا غصہ حکومت پر نکالتے کہ پٹرولیم مصنوعات میں کمی حکومت کو ہضم نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے اْنہوں نے ترسیل میں کمی کر دی۔

اب سال 2020ء اور مہینہ جون کا ہے۔ ٹھیک ساڑھے پانچ سال بعد دوبارہ ایسی ہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہونے کے بعد جہاں اس کی طلب بڑھ گئی وہیں رسد نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد پٹرول پمپوں پر شاپرز، بوتلیں اور کین لئے کھڑی دکھائی دیتی ہے کہ کسی طرح لٹر، دو لٹر پٹرول مل جائے۔ کسی خوش قسمت کو مل جاتا ہے تو کوئی گھنٹوں کھڑا رہنے کے بعد بھی ناکام واپس لوٹ جاتا ہے۔ حکومت اسے اپنے خلاف سازش قرار دیتی ہے جبکہ عوام اسے حکومت کی نااہلی اور ناکامی تصور کرتے ہیں۔ تب بھی پٹرول بلیک میں فروخت ہوتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ 2015ء اور 2017ء میں ملک پر ن لیگ کی حکومت تھی اور آج 2020ء میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔

ہم پاکستانیوں کی اکثریت صرف حال میں جیتی ہے کبھی ماضی میں جھانک کر نہیں دیکھتی۔ اگر ماضی کو ٹٹولا جائے تو ہم توانائی، آٹا، چینی،گندم، پٹرول سمیت بے شمار بحرانوں کا شکار رہ چکے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں اگر آٹا سستا تھا تو چینی بحران نے زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس وقت توانائی بحران تھا۔ موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو جاتی تھی جبکہ سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ عام تھی۔ نون لیگ برسراقتدار آئی تو آٹا، چینی، پٹرول اور فرنس آئل بحران کی زد میں رہی۔ تحریک انصاف کو حکومت ملی تو بھی چینی، آٹا کے بعد اب پٹرول بحران کا شکار ہے۔ چینی اور آٹا کی طرح پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے بھی اسی ملک کے باشندے ہیں۔ یہ لوگ اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ جن پر حکومتیں بھی ہاتھ ڈالنے سے کنی کتراتی رہتی ہیں بلکہ ماضی کی ہر حکومت ہی ان کے سامنے بے بس دکھائی دی۔وہ اس لئے کہ ذخیرہ اندوزوں میں ہمیشہ بڑے سیاستدان ہی ملوث ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بحران اور ٹائیمنگ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، ایک خاص مدت کیلئے چینی، آٹا، پٹرول وغیرہ کے مصنوعی بحران پیدا کئے جاتے ہیں۔ ٹائیمنگ کے ساتھ یعنی مدت پوری ہونے پر اچانک بحران ختم ہو جاتا ہے جبکہ حکومتوں کی جانب سے بحران پر قابو پانے کے دعوے تو کر دیئے جاتے ہیں لیکن ذمہ داران کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوتیں۔ موجودہ حکومت میں چینی اور آٹا بحران کے بعد اب پٹرول بحران نے سر اُٹھا دیا ہے۔ وزیراعظم بھی برہم ہیں کہ میں نے سب سے سستا پٹرول کیا تھا غائب کس نے کیا۔ مطلب کہ اْنہیں بھی ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پٹرول کی مصنوعی قلت کرنے والے کون ہیں۔ پیپکو کو چاہئے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو بے نقاب کرے، عدالتوں کو چاہئے کہ ازخود نوٹس لے کر تیل کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں پر مقدمے چلائے اور تیل کے ذخیروں کو قبضے میں لے۔ حکومت بھی عوام سے پوچھنے کے بجائے سنجیدگی سے اِن مسائل کا نوٹس لے کہ یہی اس کے مفاد میں ہے۔ یہ نہ ہو کہ ملک مکمل طور پر ایک ناکام ریاست بن جائے اور عالمی برادری تالیاں بجائے۔

Najeem Shah

Najeem Shah

تحریر : نجیم شاہ