سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات

Smoking

Smoking

تحریر : وارث سلطان

نابالغ لڑکے جو فیشن سمجھ کر سگریٹ کا دھواں نکالتے ہیں انہیں اس طرف راغب کرنا ہوگا کہ سگریٹ نوشی ایک ایسی عادت ہے جس کو مسلسل اپنانے سے پھیپھڑوں کے خلیوں میں وقوع پذیر ہونی والی تبدیلیاں کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ مزید بر آں سگریٹ نوشی کا استعمال مائیلائڈ لیوکیمیا اور دل کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر تنظیمیں ترک تمباکو پر آگاہی پھیلا رہے ہیں لیکن باوجود اس کے دنیا کے بیشتر ممالک میں تمباکو کی مصنوعات کی خرید و فروخت اور پیداوار میں اضافہ ہو بھی رہا ہے جو عیاں کرتا ہے کہ بڑھتے ہوئے سگریٹ نوشی کے رجحان کو کم کرنے کیلئے نوجوانوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر کے ان کو اعتماد میں لینا ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی کے استعمال سے سالانہ 8 لاکھ سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ 1.2 ملین ایسے افراد بھی ہیں شامل ہیں جو بذات خود تمباکو نوشی نہیں کرتے مگر دوسرے کے اڑائے ہوئے دھویں کی زد میں آکر نقصان اٹھاتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق تمباکو نوشی کرنے والے 80 فیصد سے زیئد افراد کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسے افراد پہلے سے کمزور صحت کے نظام پر مزید بوجھ بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سگریٹ، گٹکا اور شیشے کا استعمال بڑے پیمانے پر ثقافتی طور پر قابل قبول عادات میں شامل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مصنوعات سستی اور آسانی سے مارکیٹ میں دستیاب ہونے کے سبب اس کا رجحان نا صرف نوجوانوں بلکہ سکول جانے والے نا بالغ بچوں میں بھی عام ہو رہا ہے۔

گزشتہ ایام میں نے کچھ بچوں کو جن کی عمر لگ بھگ 14 سے 15 برست تھی کو سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے دیکھا اور یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ قانون کے مطابق سگریٹ نوشی کرنے کی حد عمر 18 سال مقرر ہے لیکن یہ زہر بچوں کو با آسانی میسر ہے۔

بڑھتے ہوئے سگریٹ کے استعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے وزارت صحت پاکستان نے فروخت کے مقامات پر سگریٹ کی نمائش پر پابندی عائد کر دی ہے جو اس ناسور سے نجات حاصل کرنے کی جانب احسن قدم ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق کم آمدنی والے بیشتر ممالک بشمول پاکستان میں تمباکو نوشی کے رجحان کا بڑوں میں 15.2 فیصد اور کم عمر بچوں میں 6.3 فیصد اضافے ہوا ہے جو انتہائی قابل فہم بات ہے۔

معاشرے کو اس برائی سے پاک کرنے کے لئے لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی ضرورت ہے لیکن بد قسمتی سے رو با انحطاط معاشرے میں نوجوانوں کو لعن طعن کی جاتی ہے جس کے باعث وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لیتے ہیں جس سے ملک میں تمباکو کے استعمال میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
کم عمری زندگی کا ایسا حصہ ہوتا ہے جب تمباکو کے استعمال سے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کا طرز عمل عام طور پر جوانی کے دور میں قائم ہوتا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق زیادہ تر تمباکو نوشی کرنے والے 18 سال تک پہنچنے سے پہلے ہی سگریٹ کی لت میں مبتلہ ہو جاتے ہیں۔

تمباکو کے استعمال کو کنٹرول کرنے سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن نے تمباکو کی طلب اور رسد دونوں کو کم کرنے کی حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے تمباکو کنٹرول کے اقدامات کا ایک فریم ورک فراہم کیا ہے جس کا نفاذ قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کیا جانا چاہئیے۔ ان اقدامات پر عمل کر کے بچوں کو تمباکو نوشی کی گھناؤنی عادت سے بچایا جا سکتا ہے۔

دیگر ممالک جہاں پر تمباکو کا بے دریغ استعمال جاری ہے کو کنٹرول کرنے کے لئے وہاں فریم ورک کنونشن کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے، سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لئے خصوصی وسائل دینے اور تمام وسائل کو بروئے کار لا کر نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کے خاتمے کے لئے تحقیقات کے نتائج پر مبنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
میری مندرجہ بالا تحریر کا مقصد یہ ہے کہ جب تک ہم نوجوانوں سے سگریٹ نوشی کے خطرات کے متعلق بات چیت میں شامل نہیں کرتے تب تک ہم صحت عامہ کے ماہرین کے ذریعہ تیار کردہ تجاویز کا عملدرآمد یقینی نہیں بنا سکتے۔ ہمیں نوجوانوں کو بحث مباحثوں میں شامل کرنا چاہئیے، ان پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے ان کو در پیش اصل مسائل کو حل کرنے کی طرف آنا چاہئیے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہر سال ایک لاکھ 60 ہزار189 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریبا 15.6 ملین بالغ جبکہ 15 سال کی عمر کے تقریبا 1200 بچے روزانہ کی بنیاد پر تمباکو نوشی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کی معاشی لاگت 143.2 ارب روپے ہےجس میں صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات سے متعلق براہ راست اخراجات اور ابتدائی اموات اور علالت کی وجہ سے کھوئے ہوئے پیداواری سے متعلق بالواسطہ اخراجات شامل ہیں۔

تاہم سائنسی جریدے نیچر میں شائع والی ایک تازہ تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ نقصان سے بچ جانے والے پھیپھڑوں کے خلیے نقصان زدہ پھیپھڑے کی مرمت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ سگریٹ نوشی کو ترک کر دیا جائے۔
تمباکو کی صنعت موٗثر طور پر حکمت عملی تیار کرتی ہے کہ کس طرح تمباکو کنٹرول کے متعلق اقدامات کا مقابلہ کیا جا سکے اور اس سے متعلق پالیسز اور بجٹ کے عمل پر اثر انداز ہو سکیں۔

ایک حالیہ عدالتی سماعت کے دوران وزارت صحت نے تمباکو کی صنعت کے پریشر گروپوں کے دباؤ کا شکار ہونے کا اعتراف کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ تمباکو کی صنعت کی لابی پاکستان میں کس قدر قانون سازی کرنے والے اداروں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

اس طرح کے مایوس کن حالت میں عوام میں تمباکو کے استعمال سے متعلق صحت کے خطرات کے بارے میں شعور بیدار کرنا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔ تمباکو مخالف مہم چلانے والوں کا ماننا ہے کہ تمباکو کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگانے سے نہ صرف تمباکو کی کھپت میں کمی آئے گی بلکہ نابالغوں تک تمباکو کی رسائی بھی مشکل ہو جائے گی۔
دوسری جانب ذرائع کا بتانا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دباؤ کی وجہ سے اگلے مالی سال کے بجٹ کے لئے تمباکو کے شعبے کے اسٹیک ہولڈرز سے کھلی بحث کی تجویز کو مسترد ر دیا ہے۔ آل پاکستان سگریٹ مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اشفاق الرحمن نے 21 مئی کو ایف بی آر کی چیئرپرسن نوشین جاوید امجد کو ایک خط میں یہ تجویز پیش کی تھی، اے پی سی ایم اے صوبہ خیبر پختونخوا میں مقامی سگریٹ بنانے والوں کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کے تمباکو تیار کرنے والے بہترین علاقوں میں سے پہچانا جاتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے ایک بار پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دباؤ میں آکر تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین بحث کے لیے اجلاس منعقد کرنے سے گریز کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کا مقصد سگریٹس پر ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے اور مقامی صنعت کے خدشات دور کر کے ان کو محفوظ رکھنے کے لئے حل کا تلاش نکالنا تھا۔

Waris Sultan

Waris Sultan

تحریر : وارث سلطان