رَبِ لَم یَزل کا فرمان ”میں کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود اُسے اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو”(مفہوم)۔ اِسی فرمان کو شعری قالب میں ڈھالتے ہوئے اقبال نے فرمایا
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہم مگر وہ قوم کہ جو اپنی حالت بدلنے کے لیے مطلق تیار نہیں۔ جب کوئی وبا گھیرتی ہے تو ہمارا زور اذانوں اور دعاؤں پر ہوتا ہے، دواؤں پر ہرگز نہیں جبکہ دُعائیں بھی اُسی وقت مستجاب ہوتی ہیں جب انسان خود کوشش کرے۔ قوم کو تو رکھیں ایک طرف، خود حکمرانوں کو بھی ملک کا خیال نہ عوام کا۔ صرف غریبوں کی ہمدردی میں ”ٹَسوے بہانے” کے سوا حکومت کا دامن خالی۔ جب سے یہ حکومت ”مسلط” ہوئی ہے، ڈھنگ کا کوئی ایک کام بھی نظر نہیں آیا۔ اقوامِ متحدہ میں بڑھکیں لگانے والے اب کشمیر کو فراموش کر چکے۔ بھارت کی دَراندازی پر کبھی کبھار وزارتِ خارجہ کا ٹوٹاپھوٹا بیان نظر آجاتا ہے یا پھر خانِ اعظم کا مودی کو ”ہٹلر” کہنا۔ اب کشمیر کو تو بھول ہی جائیںکہ حکمرانوں کی نظر میں وہ قصۂ پارینہ بن چکا۔
کورونا کی وَبا تو جنوری میں ہی چین کے شہر ووہان میں پھیل چکی تھی اور کچھ ہی عرصہ بعد ہمارا پڑوسی ایران بھی اِس کا شکار ہوگیا لیکن چین اور ایران کے درمیان سینڈوِچ بنے پاکستان کے حکمران اِس وَبا سے بچنے کے لیے حفاظتی انتظامات کی بجائے اپوزیشن پر آگ کے گولے برساتے اور طنز کے نشتر چلاتے نظر آرہے تھے۔ جب پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیاتو حکمرانوں نے مطلق پرواہ نہ کی۔ پھر ایران سے زائرین دھڑادھڑ پاکستان میں داخل ہونے لگے تو اُنہیں قرنطینہ میں رکھنے کی بجائے شُتربے مہار کر دیا گیا۔ یہ کام دَرآمد شدہ مشیروںاور وزیروںنے سرانجام دیا۔ کورونا وائرس آہستہ آہستہ پھیلتا رہا اور ”نیرو” چین کی بانسری بجاتا رہا۔شاید اُس کا ٹارگٹ کبھی کورونا تھا ہی نہیں، وہ تو احتساب کے نام پراپوزیشن کوختم کرنے کے لیے آیا تاکہ ”گلیاں ہو جان سُنجیاں وِچ مرزا یار پھرے”۔
سندھ حکومت نے اِس وَبا کا بھلے تاخیر سے ہی لیکن ادراک تو کیااور حفاظتی اقدامات میںجُت گئی جس پر خانِ اعظم نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف میں لفظی گولہ باری شروع ہو گئی۔ شروع شروع میں سندھ حکومت نے بھرپور کوشش کی کہ مرکز کے قدم سے قدم ملا کر چلے لیکن خانِ اعظم کو تو مِل بیٹھ کر کھانے کی عادت ہی نہیں۔ اللہ بھلا کرے سندھ کے وزیرِاعلیٰ مرادعلی شاہ کا جو مرکز کی شدیدترین مخالفت کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں مکمل طور پر خانِ اعظم کے قبضۂ قدرت میں ہیں اِس لیے وہاں ہر پالیسی اُنہی کی ہدایت کے مطابق ترتیب دی جاتی ہے۔
میاں شہبازشریف لندن سے واپس آئے تو طرح طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں اور اُنہیں قابو کرنے کے لیے منصوبے تیار ہونے لگے اورحکومت نے اپنی ”نیبی تلوار” کو صیقل کرنا شروع کر دیا۔ لال حویلی والے نے میڈیا پر بیٹھ کر باربار یہ اعلان کیا کہ عید کے بعد شہبازشریف کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ چیئرمین نیب سے سوال ہے کہ کیا شیخ رشید نیب کا ترجمان ہے؟۔ اگر نہیں تو اُسے مصدقہ اطلاعات کون پہنچاتا ہے؟۔ ایسا کیوں ہے کہ کسی بھی شخص کی گرفتاری سے پہلے حکومتی وزیرمشیر اُس کی گرفتاری کی اطلاع دے دیتے ہیں؟۔ کیا احتساب اِسی کا نام ہے؟۔ پروگرام کے مطابق عید کے بعد میاںشہباز شریف کی گرفتاری کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 2 جون کو طلب کر لیا گیالیکن میاںصاحب نیب عدالت جانے کی بجائے کسی محفوظ جگہ پر چھُپ گئے اور اگلے دن لاہور ہائیکورٹ سے 17 جون تک عبوری ضمانت منظور کروا لی۔ پھر بھی شرم گھول کر پی جانے والی نیب نے اُنہیں 9 جون کو طلب کر لیا حالانکہ میاںشہباز شریف نیب کوباربار درخواست کر چکے تھے کہ وہ کینسر کے مریض ہیںاور کورونا وائرس کی وجہ سے وہ نیب آفس نہیں آسکتے کیونکہ نیب کے کئی اہلکار بھی کورونا میں مبتلا ہو چکے ہیں اِس لیے اُنہیں سوالنامہ بھیج دیا جائے یا ویڈیولنک پر انکوائری کر لی جائے لیکن نیب کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ میاںشہباز شریف 9 جون کو نیب آفس میں پیش ہوئے، اُن سے ڈیڑھ گھنٹے تک انکوائری ہوئی اور اب وہ کوروناوائرس میں مبتلا ہو کر قرنطینہ میں ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ میاںشہباز شریف کوروناوائرس نیب آفس سے لائے یا کہیں اور سے لیکن کیا نیب کا کینسر کے مریض کے ساتھ یہ رویہ درست تھا؟۔
کورونا وائرس اپنی تمامتر تباہ کاریوں کے ساتھ پاکستان پر مسلط ہو چکا لیکن خانِ اعظم اب بھی لاک ڈاؤن کے خلاف تقریریں فرما رہے ہیں۔ اُن کے فرمودات کا سارا زور اِس بات پر کہ لاک ڈاؤن سے غریب بھوکے مر جائیں گے حالانکہ پاکستانی قوم اتنی مخیر کہ تاریخِ پاکستان میں آج تک کوئی بھوک سے نہیں مَر ا۔ غریبوں کی ہمدردی میں ”اشکبار” خانِ اعظم کی ہمدردی موجودہ بجٹ میں کھُل کر سامنے آگئی۔ ہم سمجھتے ہیںکہ پاکستان کا مظلوم ترین طبقہ سفیدپوش تنخواہ دار ہے اور لَبِ گور پینشنر۔ بجٹ سے چند دن پہلے یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ آئی ایم ایف نے تنخواہوں میں 20فیصد کٹوتی کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن خانِ اعظم اِس پر ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہمارا ماتھا تو اُسی وقت ٹھَنکا کہ اب تنخواہ دار اور پینشنرز کو کچھ نہیں ملنے والا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دینے والے خانِ اعظم سے سوال ہے کہ اُنہوں نے تو خودکُشی نہیں کی، کیا اب پندرہ بیس ہزار تنخواہ اور پینشن لینے والے خودکُشی کر لیں۔ ریاستِ مدینہ کے دعویدار سے سوال ہے کہ اگر تمامتر حکومتی سہولیات اور ذاتی گھرکے باوجود ”دو افراد” کا 2 لاکھ تنخواہ میںگزارہ نہیں ہوتا تو اُن سے کئی گنا کم تنخواہ اور پینشن پانے والوں کا گزارہ کیسے ہوگا؟۔ حضورِاکرمۖ کا فرمان ہے ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس سے روزِ قیامت اُس کی بھیڑوں کا حساب ضرور لیا جائے گا”۔ کیا خانِ اعظم کو روزِ محشر اپنی پُرسش کا کچھ خیال نہیں؟۔
بجٹ تقریر میں حماداظہر فرما رہے تھے کہ موجودہ بجٹ میں کوئی نیاٹیکس نہیں لگایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ پہلے سے مسلط کردہ ٹیکسز کیا کم تھے جو عوام پر ٹیکسز کا مذید بوجھ ڈالا جاتا؟۔ اگر حکمران پہلے سے مسلط کردہ ٹیکسز میں کمی کرتے تو کہہ سکتے تھے کہ نہ صرف کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا بلکہ کمی بھی کی گئی۔ مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی زندگی اجیرن ہے اور حکومت بڑے فخر سے کہہ رہی ہے کہ اُس نے عوامی خون کا آخری قطرہ نہیں نچوڑا۔ یہ واحد بجٹ تقریر تھی جس پر اپوزیشن کو بجٹ تقریر کی کاپیاں تک مہیا نہیں کی گئیں۔ اپوزیشن تو حسبِ سابق شور مچاتی ہوئی بجٹ تقریر سے واک آؤٹ کر گئی لیکن اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گئی کہ کیا اُس کا یہ رویہ درست تھا؟۔ کیا اُسے فرینڈلی اپوزیشن نہیں کہا جائے گا جو جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے تو حکمرانوں پر تنقید کرنے کی بجائے واک آؤٹ کر جاتی ہے؟۔ شنید ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ طے پا چکا کہ بجٹ سیشن میں اپوزیشن کٹوتی کی تحریکیں ضرور پیش کرے گی لیکن پھر خود ہی واپس لے لے گی۔ اِس پر جمعیت علمائے اسلام نے شدید احتجاج بھی کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اصل اپوزیشن صرف جمعیت علمائے اسلام ہے۔ جب یہ حالت ہو تو پھر خیر کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف۔