اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں کووڈ انیس کے مریضوں کی ادویات اور طبی آلات یا تو مارکیٹ سے غائب ہو چکے ہیں یا پھر ان کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بری طرح سے متاثر ہونے والے شہر لاہور میں نئی قسم کے کورونا وائرس کے متاثرین کو انفیکشن کی پیچیدگیوں کو کم کرنے کے لیے تجویز کی جانے والی ادویات کے حصول میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ دوا ساز اداروں کی ملی بھگت سے مارکیٹ میں کئی ایسے گروہ وجود میں آ چکے ہیں جو معمولی قیمت پر ملنے والی ادویات، قلت کی وجہ سے کافی مہنگے نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما ڈاکٹر اشرف نظامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ بعض لالچی تاجر لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بقول بعض مفاد پرست عناصر، حکومت اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی ملی بھگت سے مصنوعی قلت پیدا کرکے مال بنا رہے ہیں اور حکومت ایسے عناصر کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ”حکومت اگر چاہے تو اس بحران کو کنٹرول کر سکتی ہے لیکن معلوم نہیں وہ ایسا کیوں نہیں کر رہی۔‘‘
ڈاکٹر نظامی نے مزید بتایا کہ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ میڈیکل اسٹور والا جو قیمت مانگ لے لوگوں کو وہی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان کے بقول کورونا کے مریض کے جسم میں آکسیجن کا لیول معلوم کرنے کے لیے جو عام سا پلس آکسی میٹر استعمال کیا جاتا ہے اس کی قیمت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
پاکستان کے میڈیکل سیکٹر پر نظر رکھنے والے ایک ماہر سفیان احمد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مارکیٹ میں اس وقت بحران کی سی کیفیت ہے۔ ان کے بقول ”اس صورت حال کا آغاز اس وقت ہوا جب شروع شروع کے دنوں میں سارے وینٹی لیٹرز حکومت نے اٹھا لیے۔ اس وقت ڈیمانڈ بڑھنے سے پرانا وینٹی لیٹر جو پانچ لاکھ میں بآسانی مل جاتا تھا اس کی قیمت گیارہ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی۔ اس کے بعد مارکیٹ سے سینی ٹائزر غائب ہوئے بعد میں ماسک کی قلت ہو گئی۔ اس وقت بھی مارکیٹ میں این نائنٹی فائیو ماسک موجود نہیں اور غیر میعاری سینیٹائزرز کی فروخت جاری ہے۔‘‘
برطانیہ سے ڈیکسامیتھازون نامی عام سی دوا کی کورونا کے شدید مریضوں کے لیے افادیت کی خبریں آنے پر اب یہ دوائی میڈیکل سٹورز سے غائب کر دی گئی ہے اس کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہی حال کئی دیگر ادویات کا ہے۔ کووڈ انیس کے مریضوں کے لیے تجرباتی طور پر استعمال کیا جانے والا ایک انجیکشن جوساٹھ ہزار روپے میں آسانی سے مل جاتا تھا اب اس کی قیمت بلیک مارکیٹ میں چار لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔
کووڈ انیس کے مرض میں شدت آ جانے پر مریض کو سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اس لیے اسے آکسیجن کا فراہم کیا جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس وقت کورونا کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد گھروں میں موجود ہے ان میں سے شدید علیل مریضوں کے لیےآکسیجن کا حصول بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ایک سینئیر صحافی اور لاہور پریس کلب کے جنرل سیکریٹری بابر ڈوگر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آکسیجن سلنڈر مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور اگر مل بھی جائیں تو وہ کم از کم چار پانچ گنا زیادہ قیمت پر ملتے ہیں۔
لاہور میں محمد اشرف نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہ میڈیکل اسٹور پر جاتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کی یہ دوا دستیاب نہیں، بعد میں تسلی کر لینے کے بعد وہ جگہ بتا دی جاتی ہے جہاں سے یہ دوا بلیک میں مل جاتی ہے۔ اشرف کے مطابق بعض میڈیکل سٹورز والے اپنی مرضی کی ادویات سادہ لوح گاہکوں کو زیادہ قیمت پر کورونا کے علاج کے نام پر فروخت کر رہے ہیں۔
والٹن روڈ کے بلال نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹوٹکوں کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا بھی منافع خوروں سے نہیں بچ سکیں۔ ان کے مطابق بیس روپے کی پچاس گرام ملنے والی ثنا مکی اب اس مقدار میں دو سو روپے میں بھی نہیں مل رہی۔ بلال کے بقول قوت مدافعت بڑھانے والی وٹامن کی گولیاں اور پھلوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ مقبول عالم نامی ایک اور شخص نے بتایا کہ کورونا کا ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریوں کی طرف سے منہ مانگے دام وصول کئے جا رہے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں پوچھ رہا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اس بحرانی کیفیت میں پاکستان بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا مرض نہ ہونے کی صورت میں حفظ ماتقدم کے طور پر ادویات خرید کر ذخیرہ کرنے سے اجتناب کریں ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایم اے کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد افضل کا کہنا تھا کہ یوں تو کورونا کے حتمی علاج کی دوا ابھی تک موجود نہیں ہے لیکن ان مریضوں کو ریلیف پہنچانے کے لیے دی جانے والی کئی ادویات کی قلت پائی جا رہی ہے۔ ”میرے خیال میں میڈیکل اسٹوروں کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ڈاکٹر کا نسخہ دیکھنے کے بعد ہی دوا دیں۔‘‘
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کے پلازمے کی بھی ٹریڈنگ شروع ہو چکی ہے۔ کئی لوگ پلازمہ دستیاب کرنے کا ایک لاکھ روپے لیتے ہیں، اسکریننگ کے بیس پچیس ہزار روپے اس کے علاوہ ہیں۔
کورونا کے ایک مریض کے لیے دوا لانے کے لیے مقامی میڈیکل اسٹور پر موجود طالب حسین نامی ایک شخص نے بتایا کہ امیر لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن غریبوں کی حالت بہت خراب ہے ” ہم کورونا سے تو شاید بچ جائیں لیکن اس مہنگائی کے ہاتھوں نہیں بچ سکیں گے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر پاکستان فارما سوٹیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل نواز احمد نے بتایا کہ انہیں ان امور پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسوسی ایشن کے ایک سابق صدر ڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا تھا کہ بعض ادویات اس لیے بھی مہنگی ہیں کہ ملک کی ڈرگ کنٹرول اتھارٹی ان کو رجسٹر نہیں کر رہی۔
پاکستان کے قانون ڈرگ ایکٹ 1976ء کے تحت ادویات کی ذخیرہ اندوزی یا ان کی زائد قیمت پر فروخت کرنا جرم ہے ۔ یہ جرم ثابت ہونے پرقید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار نے جمعرات کے روز ادویات کی ذخیرہ اندوزی کرنے، مہنگے داموں آکسیجن سلنڈر فروخت کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام لیبارٹریوں کو ایک ہی قیمت پر کورونا ٹیسٹ کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔