دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام، جیسے سلوگن کا تخلیق کار اور منفرد گرجدار آواز کا صدا کار اپنے چاہنے والوں کو بچھڑنے کا دکھ دے گیا ۔اس دکھ کو سماجی رابطوں کی دیواروں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جو دیوار گریہ میں بدل چکی ہیں۔
دنیا میں کامیاب انسانوں کی زندگیوںکونئی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنانے کے لیئےSuccess Stories کامیابی کی کہانیاں تخلیق کی جاتی ہیں جن سے متاثر ہوکر نوجوان اپنے روشن مستقبل کے لیئے جدوجہد کے نئے رستے تلاش کرتے ہیں۔ جن کے سبب وئہ حالات کے جبر اور عملی زندگی کے پُرخطر راہوں پر حوصلے اور صبر سے گامزن ہو کر کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ طارق عزیزبھی ایک پاکستانی کی جدوجہد کی کامیابی کی عجب کہانی ہے جس سے محنت،جدوجہداور صبر کے نشان منزل سے کامیابی کی طرف بڑھا جا سکتا۔ عظیم لوگوں کی تاریخ ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ ان کی عملی زندگی کی شروعات انتہائی معمولی وسائل، سماجی گمنامی اور معاشی بدحالی سے ہوتی ہے۔ایسے مشکل حالات جوانسان کو توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔بڑا کھٹن وقت ہوتا ہے لیکن فطرت نے منفرد اور عظیم انسان بنانے کے لئے حالات کے جبر سے گزارنا ہوتا ہے۔انہیں مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بڑا اذیت ناک تکلیف دہ اور مشکل وقت ہوتا ہے ایسا مشکل وقت کہ جب ان کے ہمعصر وں نے عملی زندگی میں پہلا قدم رکھا تو منزلو ں نے خوش آمدید کہا لیکن منفرد لوگوں کی آسان منزلوں کو گمنام اور پر خطر رستوں میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔کہیں سے خیر کی خبر نہیں آتی۔حالات کی سیاہ راتیںسحر آشنا نہیں ہونے دیتیں۔ ان منفرد انسانوں کی یہ کیفیت کئی دہائیوں تک برقرار رہتی ہے ایسے لوگوں کو جب انسانی مزاجوں اور رویوں کاگہرا مشاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر ان ہمہ جہت شخصیات پر شہرت تھم کے برسنا شروع ہوتی ہے۔ زمانہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ان کی شخصیت سمندروں جیسی گہری ہو جاتی ہے اور وئہ عزتوں کے ہمالیہ لگتے ہیں۔ہمزاد دا دکھ اور خوشبووں کا بھید جاننے کی جسارت طارق عزیز جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
طارق عزیرکا پہلا اعزاز ہندوستان سے ساہیوال ہجرت کا ہے۔طارق عزیز کو ابتدائی زندگی میں ہی مالی پسماندگی کا مشاہدہ اور کرائے کے ایک کمرے میں تنہائی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ پاکستان مسلم لیگ سے وابستگی رہی۔اداکار،ٹی وی میزبان،شاعر،بزم طارق عزیزٹی وی شو،نیلام گھر،کالم نگار،ایڈیٹر،ادیبجیسے امتحانات سے سرخرو ہوئے ۔جالندھر کے ارائیں گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کی،اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا،١٩٦٤ میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں ایا توطارق عزیز پی ٹی وی کے پہلے مرد اناونسر تھے، طارق عزیز کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی پر پہلا اعلان کرنا ایسا ہی تھا جیسے چاند پر قدم رکھنا۔طارق عزیز اپنی مقبولیت کا کریڈیٹ پی ٹی وی کو دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ میں ٹیلیویژن پر سب سے زیادہ نظر انے کے حوالے سے ممکنہ طور پر ورلڈ ریکارڈ کا حامل ہوں۔طارق عزیز پی ٹی وی کے انتخابی ٹرانسمشن کا بھی حصہ رہے۔
طارق عزیز نے نیلام گھر کے پہلے شو میں کہا کہ حالات اس وقت زوال کا شکار ہونا شروع ہوئے جب غیر پیشہ ور پروڈیوسرز نے کام شروع کیا جس کے نتیجے میں لوگوں نے انڈین اور دیگر چینلز کا رخ کر لیا۔اخر میں اپنی بات ان الفاظ پر ختم کروں گا کہ پی ٹی وی عوامی پراپرٹی ہے اور یہ کسی ایک خاص طبقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ طارق عزیز پر شہرت ٹھہر کر برسی ہے۔پاکستان اور بھارت کی ٹی وی اسکرین پر اج جتنے بھی ذہنی ازمائش کے پروگرام پیش کیئے جا رہے ہیں ان سب میں انفرادیت نیلام گھر کو ہی حاصل ہے۔
طارق عزیز کی مخصوص گرجدار آواز ہی نے انہیں منفرد کیا۔طارق عزیز نے ١٩٤٧ کو اپنے والدین کے ہمراہ جالندھر سے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔١٩٧٥ میں شروع کیئے جانے والے پروگرام نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا،طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت تھے انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔١٩٦٧ میں ان کی پہلی فلم انسانیت ر یلیز ہوئی ان کی دیگر مشہور فلموں میںسالگرہ، قسم اس وقت کی،کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں،ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔انہیں انکی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ ملے ہیںحکومت پاکستان کی طرف سے١٩٩٢ میں حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور١٩٩٧ تا١٩٩٩ رکن قومی اسمبلی رہے۔ طارق عزیزپاکستانی تحت اللفظ اور مرثیہ خوان رہے۔طارق عزیز ایک علم دوست انسان تھے قلم کو اپنے اظہارکے لیئے استعمال کیا۔ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ کتابوں سے انہیںعشق تھا۔ان کے کالموں کا مجموعہ داستان کے نام سے اور پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ہمزاد دا دکھ شائع ہوا۔انہوں نے اردواور اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی۔ دو رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔
١٦ جون ٢٠٢٠ کی شام کو طار ق عزیز کا ٹویٹ(یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے،رواں دواں زندگی رک گئی ہے،کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی،نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے اتا ہے،ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔)
طارق عزیز نے اس دنیا کو خیر آباد کہنے سے پہلے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی۔ اُس مالک کی کن کن نعمتوں کا ذکر اور شکر ادا کیا جائے۔جس نے ہمیں موت جیسی نعمت سے بھی سر فراز فرمایا۔موت کی نعمت کی قدر بستر مرگ پر پڑے زندگی ہارنے والے شخص سے معلوم کی جا سکتی ہے۔