یہ ایک اٹل حقیت ہے کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک بہت ہی کٹھن حالات سے گزرہے ہیں، کورونا سے صرف کوئی ایک خاص ملک نہیں بلکہ چین کے تجارتی مرکز ووہان سے شروع ہو کر اس وبا ء نے پورے کرہ ارضی کو اپنی لپیٹ میں لیکر تباہی مچادی ہیں، اس وباء نے ترقیافتہ ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کیا ، ابتک کم ترقیافتہ ممالک کے لوگ اس وباء کہ کم ہی شکار ہوئے ہیں۔ اس وباء سے دنیا بھر کے مختلف رہن سہن والے قوموںکے لائف اسٹائل کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کے انداز کووہی بدل ڈالا ہے۔ کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہے ، ساتھ ہی ساتھ مختلف ماہرین کی جانب سے کورونا اور اس کے بعد کی صورتحال پر تبصروں کے انبار در انبارلگائیں جارہے ہیں۔ اس بات پر تمام ماہرین متفق ہے کہ کور ونا کے بعد کی دنیاپہلے جیسی نہ ہوگی۔ اس وقت پوری دنیا میں سیاسی وسماجی سطح پر بھی بڑی نمایا ں تبدیلیا ں دیکھنے میں آرہی ہیں اور مزید دیکھنے میں مل سکتی ہیں، کیونکہ پوری انسانیت پہلی باراتنے بڑے چیلنج کا ایک ساتھ سامنا کررہی ہے۔ جہاں پوری دنیا کے غیر اسلامی ممالک اس وباء سے پنجہ ازمائی کرہے ہیں وہی پر مسلم ممالک اقدامی پوزیشن میں نظر نہیں آتے، ان کی نگاہیں کبھی مغربی ممالک یعنی یورپ یا امریکا کی طرف ہوتی ہیں اور کبھی مشرقی ملکوں چین ، جاپان یا کوریاکی طرف ، ان کی سوچ کہ کب کہیں سے آواز آئے اور اس وباء سے جان چھڑائیں۔
ایک امریکی رسالہ نے (Foreignpolicymegzeen) نے ابھی حال ہی میں کورونا اور کورونا کہ بعد کی دنیا کے صورتحال حوالے سے ایک اہم سروے شائع کیا ۔ رسالہ نے سروئے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے رائے لی، سیاست داں یا بیوروکریٹس، نامی گرامی یونیورسٹیوں و کالجز کے پروفیسرزاور سائنس داں ہوں یا طبی میدان سے وابستہ ڈاکٹرز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان ہوں یا تعلیم وریسرچ کے میدان کے شہ سوار، ہر طبقے کی اس سروے میں نمائندگی ہے، سروے میں اس بات سے سب نے اتفاق کیا کہ اب دنیا بدل نے والی ہے، ساتھ ہی ساتھ سابق امریکی جنرل اور بروکنگس انسٹیٹوٹ کے ڈائرکٹر (John R Allen) بڑے واضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ کورونا کے بعد کی دنیا ناقابل تصور حد تک تبدیل ہو جائے گی، کئی ممالک کی چوہدراہٹ خطر ے میں ہے، یہ وباء معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کرکے رکھ دیں گی اور بڑ ے اور طاقتور ممالک میں رسہ کشی عروج پر ہو گی، ترقی پذیر ممالک کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، بے روزگاری کئی ممالک کے سماجی تانے بانے کوبھی متاثر کردے گی اور نام نہاد عالمی نظام آپسی رسہ کشی او ر اختلافات کی وجہ سے زمیں بوس ہو جائے گا۔
امریکی وزارت خارجہ کے سابق عہدیدار اور ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر آر نیکولاس برنس نے کورونا وائرس کو اس صدی کا سب سے بڑا عالمی چیلینج قرار دیا، ان کے بقول یہ وبا ء پوری دنیا کے منظرنامے کو بدل دے گی، 2008 کی عالمی کساد بازاری اس کے سامنے پھیکی پڑ جائے گی، چین او ر امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ سے یہ ممالک اس چیلنج کا صحیح مقابلہ کرنے کے بجائے پیچیدگی کا سبب بن رہے ہیں، جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اسی طرح کے خدشات کا اظہار پرسٹن یونیورسٹی کے شعبہ سیاست کے پروفیسر (JoneEikenberry)نے بھی کی ہے، ان کاخیال ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا میں امریکی اجرداری ختم ہوجائے گی، اور یوروپ بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ وہ امریکہ کا متبادل بن سکے، لا محالہ عالمی قیادت مشرق کی طرف منتقل ہوگی اور چین امریکہ کی جگہ لے سکے گا۔ جون ایکنبری کی خیالات کی تائیدپاکستان کے کئی نامی گرامی تجزیہ نگار بھی کرتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہ نکالا جائے کہ عالمی معاشیات کے تما م پیمانے بدل جائیں گے ۔
موجودہ حالات میں امریکی قوم کا ایمان گلوبلائزیشن پر متزلزل ہوا ہے اور وہ عالمی تجارت کے حق میں نہیں ہے ۔ اس کے برخلاف چینی عوام گزشتہ صدی کی آخری دہائی سے ہی اپنے حدود سے نکل کر پوری عالمی منڈی میں مسابقہ آرائی کررہی ہے اور وہ اس میں مزید آگے بڑانا بھی چاہتے ہیں۔راقم کے استاد صحافت و تجزیہ نگار قادر خان یوسفزئی کے مطابق کورونا کے بعد کی دنیا کے بارے میں کسی قطعی نتیجے تک پہنچنا جلدبازی ہے، البتہ کورونا سے نمٹنے کے لیے دنیا کو یکجاں ہونا پڑے گا ، تب ہی ہم اس وباء کو قابوں کرسکیں گے۔۔۔
بہر حال اتنا تو طے ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا پہلے جیسے نہیں ہوگی، جیسا اس وبا ء پھیلنے سے پہلے ہم زندگی جی رہے تھے، اگر سماجی لحاظ سے غور کریں تو ہمارے سماج میں بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے، ہمارے خاندانی تعلقات نے نئے رنگ و روپ اختیا رکرلئے ہیں، قربت کی جگہ پر دوری کو ترجیح دی جانے لگی ہے، مل بیٹھ کر بات چیت کی جگہ انفرادیات کو فروغ دیا جانے لگا ہے، رشتے ناطے اب بذریعہ فون یا وٹسئپ پر نبھائے جانے لگے ہیں، گھروں ، گلیوں اور حجروں کی مجلسیں مفقود ہو گئی ہیں، سماجی رابطے بھی آن لائن ہو گئے ہیں۔ یہ تبدیلیا ں اس وقت ہیں جب کور ونا نامی وباء نے اب تک ایک کروڑ کا ہندسہ غبور بھی نہیں کیا ڈر اس بات کا ہے کہ آگے اور کیا ہوگا؟
کورونا کی ابتداء میں اس کو قابوں کرنے کے لیے تقرباً تمام ممالک نے لاک ڈائون لگایا ،کسی ملک نے کرفیوں تو کسی نے بغیر کرفیوں کا لاک ڈاون لگایا، یہیں صورتحال پاکستان میں بھی تھی دوماہ مسلسل لاک ڈائون کے بعد اب اسمارٹ لاک ڈائون لگا دیا گیا ملک کے مختلف اضلاع کے مختلف علاقوں میں۔ سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ اسمارٹ لاک ڈائون ہو یا سابقہ وہ ایک شہری کی آزادی پر قدغن ہے، یہ حالات ملک کو ایک طرح کے جابرانہ استحصالی نظام کی طرف دھکیل رہے ہیں، فرد کی آزادی پر قینچی چلے گی اور وہ ہروقت مشینی آلات کے گھیرے میں ہوگا، اس سے عوام و حکمران ایک دوسرے سے بدزن ہونگے۔ موجودہ وباء میں جمہوری لبادے میں بھی حکومتیں ڈکٹیٹرشپ کا مظاہرہ کرہی ہیں، توعوام بھی کسی سے کم نہیں ، ان سب امور کا مقابلہ کرنے لئے ضروری ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ عوام الناس بھی بیداری کا ثبوت دیں ، عوام اپنی حکومتوں کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہو اور حکمراں سنجیدہ ہوکر اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں، تاکہ ان لاک ڈائونوں سے مزید جان چھٹ جائیں۔
”کورونا دنیا کو بد ل دے گا؟” ہاں اگر یوں ہی دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈائونز کا سلسلہ جاری رہا تو کئی ممالک دیوالیہ ہو جائیں گے اور عالمی معیشت کا گراف کم ازکم س70 فی صد تنزلی کا شکار ہوجائیگا، اس کا سب سے زیادہ اثر غریب اور جنگ زدہ ممالک پر پڑے گا، اور بعض طاقت ور ممالک تعمیر وترقی کے نام پر دوسرے ممالک کو غلام رکھنے کے لیے نئے نئے ہتھ کنڈے استعمال کریں گے۔یہ تو صرف قیاسات ہیں جس کی جانب عالمی صورت حال اشارہ کررہی ہے، ایسے میں اس طوفان سے صحیح سالم وہی ممالک و قوم اپنی کشتی پار لگا پائیں گے جو عزم وحکمت کے ساتھ اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کی طاقت رکہتے ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی اس وباء سے ہم سے کو محفوظ رکھ (آمین)