اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پی ٹی آئی کی حکومت ان دنوں مختلف وجوہات کی بناء پر تنقید کی زد میں ہے۔ اب ناقدین اس بات پر چراغ پا ہیں کہ وزير اعظم نے انکم ٹیکس اور رعایات کی صورت ميں صنعتوں کو اربوں روپے کی چھوٹ دی ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے انکم ٹیکس چھوٹ اور رعایات پر پہلی تفصیلی رپورٹ، جو منگل کو منظر عام پر آئی، کے مطابق مالی سال سن 2020 میں کاروبار اور صنعتوں کو انکم ٹیکس اور رعایات کی مد میں ایک سو چالیس ارب روپے کی چھوٹ دی گئی۔ يہ مجموعی طور پر دی جانی والی چھوٹ اور رعایات کا سینتیس فیصد ہے۔ مجموعی طور پر تین سو اٹھتتر ارب روپے کی چھوٹ اور رعایات دی گئيں۔ فيڈرل بورڈ آف ريونيو پہلے ہی اپنے ٹیکس کے اہداف پورے نہیں کر پایا اور ايک ایسے وقت میں جب ملک کو مالی وسائل کی شدید ضرورت ہے، ان رعایات کو کئی حلقوں ميں ہدف تنقید بنايا جا رہا ہے۔
ٹیکس اور مالیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ امراء اور با اثر افراد کو چھوٹ یا ریاعتیں دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے بتایا، ”میڈیا میں صرف ٹیکس کو جمع کرنے پر بحث ہوتی ہے لیکن ان رعایات کا ذکر نہیں کیا جاتا، جو ایسے افراد کو دی جاتی ہيں، جن کے بڑے بنگلے، گولف کلبز، ریسٹ ہاوسز اور دوسرے کاروبار ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے وجود میں آنے سے لے کر اب تک ٹیکس میں دو اعشاریہ بارہ کھرب روپے کی چھوٹ دی ہے، جو ایم ایل ون ریلوے لائن کی مین لائن بنانے کے ليے کافی ہے، جس کی لاگت ایک اعشاریہ ایک کھرب روپے یا سات اعشاریہ دو بلین ڈالر ہے۔ اسی دوران کورونا کی وبا آ گئی اور حکومت نے امراء کو کہا کہ وہ چندے دیں اور ٹیکس پر چھوٹ حاصل کریں۔ اس عمل سے صوبوں کا حصہ کم ہو جائے گا، جس سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔‘‘
معروف اقتصادی ماہر ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ جن طاقتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے وہی ملک کو بھی چلا رہی ہیں۔ ”سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ٹیکس چھوٹ دی ہی کیوں جاتی ہے؟ پہلے ہمارا زر مبادلہ مشینوں کی امپورٹ پر چلا جاتا ہے اور پھر جو یہ مشینیں امپورٹ کر کے مال بناتے ہیں، ہم ان کو انکم ٹیکس اور دوسری مد میں چھوٹ دے دیتے ہیں اور مشینوں پر ڈیوٹی نہ لگا کر بھی ہم اپنا نقصان کرتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کفالت پیدا کریں۔ ”بجائے اس کے کہ حکومت یہ چھوٹ دے، حکومت خود یہ کام کیوں نہیں کر سکتی۔ مشینیوں کی درآمد پر چھوٹ دی جاتی ہے، اس کے باوجود ہماری صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ مشینیں خود بنائیں اور نجی سرمائے کو نوازنے کی بجائے حکومت خود کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں میں حصہ لے کر کرڑوں کی تعداد میں جو افرادی قوت ہمارے پاس موجود ہے، اس کو استعمال کرے اور عوام کو فائدہ پہنچائے۔‘‘
تاہم کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ایف بی آر کو صرف ٹیکس کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ اس ادارے کو حکومتی پالیسی پر عمل درآمد کرنا بھی ہوتا ہے۔ سابق ممبر پالیسی ایف بی آر ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا ہے کہ تمام حکومتیں ٹیکس میں چھوٹ اور رعایتیں دیتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ”پہلی بات یہ ہے کہ حکومت نے رعایتوں کی تفصیل پیش کی ہے، جو پہلے اس طرح پیش نہیں کی جاتی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی ہوتی ہے اور وہ بین الاقوامی معاہدے بھی کرتی ہے، جس میں کئی وعدے کيے جاتے ہیں۔ تو اگر گرین انرجی یا کسی اور شعبے میں حکومت ترقی چاہتی ہے، تو اسے رعایات اور ٹیکس میں چھوٹ دینی پڑے گی تاکہ وہاں سرمایہ آ سکے اور کسی بھی کاروبار کے ابتدائی برسوں میں منافع نہیں آتا۔ اس ليے آپ کو یہ رعایات یا چھوٹ دینی پڑتی ہے۔‘‘