تہران (اصل میڈیا ڈیسک) اگرچہ تہران کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایرانی دارالحکومت کی آبادی کو محسوس ہونے والا پراسرار دھماکا کسی عسکری ٹھکانے میں نہیں بلکہ بارشین میں گیس کی ایک تنصیب میں ہوا تاہم اس مقام کی حساسیت کی بنا پر عجیب نوعیت کے اس حادثے کے حوالے سے شکوک و شبہات ابھی تک باقی ہیں۔
مغربی سیکورٹی ادارے ماضی میں اس مقام کو مشتبہ قرار دے چکے ہیں۔ ان کے نزدیک ایرانی حکام ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہاں پر جوہری دھماکوں سے متعلق تجربات کر رہے ہیں۔
سابقہ رپورٹوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بارشین میں تحقیقی سرگرمیوں کے علاوہ گولہ بارود، میزائل اور دھماکا خیز مواد و آلات کی تیاری سے متعلق کارروائیاں انجام دی جاتی ہیں۔ حالیہ عرصے میں امریکی اخبارات میں یہ بھی کہا گیا کہ بارشین کے اطراف مشتبہ سرگرمیاں دیکھی گئیں۔ تاہم ایٹمی توانائی کی ایرانی ایجنسی کے ترجمان نے گذشتہ ماہ (مئی) میں واضح کر دیا کہ یہ ایک سڑک کی مرمت کا کام تھا جو پانی میں ڈوب گئی تھی۔
البتہ ایران کی جانب سے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کو اس مقام کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے مسلسل انکار نے یہاں کی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایرانی حکام یہ حیلہ پیش کرتے ہیں کہ آئی اے ای اے 2005 میں اس مقام کا معائنہ کر چکی ہے اور اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔
آئی اے ای اے نے 2011 کے اواخر میں یہاں کی تنصیب کا دورہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ مطالبہ اس مقام پر انہدام و تعمیر کی نئی کارروائیاں نوٹ کیے جانے کے بعد سامنے آیا۔ فروری 2012 میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام آئی اے ای اے کی معائنہ کروں کے داخلے کو مسترد کر دیا گیا۔
تاہم ستمبر 2015 میں ایران نے بین الاقوامی معائنہ کاروں کی موجودگی کے بغیر خود سے بارشین کے مشتبہ عسکری مقام سے نمونے لے کر آئی اے ای اے کے سابق ڈائریکٹر یوکیا امانو کے حوالے کر دیے۔ یہ بات ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اس وقت جوہری معاملے سے متعلق ایک ایرانی ذمے دار کے حوالے سے بتائی۔
اس سے قبل اگست 2015 میں ایک امریکی تحقیقی ادارے نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے بارشین کے عسکری کمپاؤنڈ کو صاف کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں قائم مذکورہ ادارے نے مصنوعی سیاروں سے حاصل ہونے والی تصاویر پیش کیں۔ ان تصاویر میں کنٹینروں جیسے بڑے اجسام کی بارشین کے مقام سے منتقلی ظاہر ہو رہی تھی۔
اس موقع پر ایران نے وضاحت پیش کی کہ یہ محض سڑکوں کی مرمت کے کام کا حصہ ہے۔
تاہم امریکی ادارے نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصاویر ایران کے عالمی قوتوں کے ساتھ 14 جولائی کو دستخط ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد لی گئیں۔ لہذا معاہدے کے بعد یہ نئی سرگرمی اس اندیشے کو جنم دیتی ہے کہ ایران صفائی کی مزید کارروائیاں انجام دے رہا ہے تا کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی جانب سے تحقیقات کی کارروائی کو برباد کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے بعض رکن ممالک کی جانب سے چند سال قبل پیش کی گئی معلومات کے مطابق “بارشين” کے علاقے میں ممکنہ طور پر ہائیڈروڈائنامک تجربات دیکھنے میں آئے۔ ان تجربات کا مقصد شدید دباؤ کے تحت کسی مخصوص مواد کے رد عمل کو جانچنا تھا جیسا کہ ایٹمی دھماکے کی صورت میں ہوتا ہے۔