جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی بنڈس ٹاگ دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان ہے، جو بہت بڑی ہونے کے علاوہ بہت مہنگی بھی ہے۔ لیکن اگر جرمن انتخابی قوانین میں جامع اصلاحات نہ لائی گئیں، تو یہی پارلیمان اور بڑی اور مزید مہنگی ہو جائے گی۔
ایک پارلیمانی جمہوری نظام والی ریاست کے طور پر جرمنی کی وفاقی مقننہ کے بھی دو ایوان ہیں۔ ان میں سے ایک عوام کا نمائندہ ایوان زیریں ہے، جو بنڈس ٹاگ کہلاتا ہے تو دوسرا وفاقی صوبوں یا ریاستوں کا نمائندہ پارلیمانی ایوان بالا ہے، جسے جرمن زبان میں بنڈس راٹ یا وفاقی کونسل کہتے ہیں۔
کئی سیاسی ماہرین یہ تنبیہ کر چکے ہیں کہ یورپی یونین کے آبادی کے لحاط سے اس سب سے بڑے ملک کو اپنے ہاں مروجہ انتخابی قوانین میں ترجیحی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ بنڈس ٹاگ کو مزید بڑا ہونے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ یہ بات جرمن سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود ملکی سیاسی شعبے کی طرف سے اس سلسلے میں اب تک کی جانے والی پیش رفت کافی سست ہے۔
بدھ یکم جولائی کو، یعنی آج جس روز جرمنی نے چھ ماہ کے لیے یورپی یونین کی صدارت بھی سنبھال لی، برلن میں بنڈس ٹاگ کے ایوان میں ارکان کی طرف سے سوالات کے وقفے کے دوران وفاقی چانسلر انگیلا میرکل بھی ایوان میں موجود تھیں۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ارکان اگرچہ آپس میں ایک دوسرے سے دور رہتے ہوئے سماجی فاصلوں کے ضابطے پر بھی عمل پیرا تھے، تاہم رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت کے گنبد کے نیچے ایوان منتخب عوامی نمائندوں سے پھر بھی بھرا ہوا ہی تھا۔
جرمنی میں اگلے وفاقی پارلیمانی انتخابات ممکنہ طور پر ستمبر 2021ء میں ہوں گے۔ اگر تب تک موجودہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کا عمل مکمل نہ کیا گیا، تو یہی پارلیمان اور اس کا ایوان زیریں تب اب سے بھی زیادہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ موجودہ بنڈس ٹاگ کے ارکان کی تعداد 709 ہے، جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ لیکن اصلاحات میں اگلے عام انتخابات کے بعد تک کی تاخیر کر دی گئی، تو اگلی بنڈس ٹاگ کے ارکان کی تعداد 800 تک یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ جرمنی کے موجودہ الیکشن قوانین ہیں ہی ایسے۔ اصولی طور پر تو پارلیمانی ارکان کی تعداد 598 ہے، جو طے ہے۔ لیکن اس وقت وفاقی پارلیمان کے ارکان کی تعداد چھ سو سے کچھ کم کے بجائے سات سو سے زائد اس لیے ہے کہ جرمنی میں عوامی رائے دہی کی نوعیت، ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے سیاسی پارٹیوں کے لیے کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے کی لازمی شرط اور پھر ووٹوں کے تناسب سے سیاسی جماعتوں میں سیٹوں کی تقسیم کا نظام اتنا متنوع اور پیچیدہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے عوامی ہمدردیوں میں ذرا سے تبدیلی سے بھی منتخب نمائندوں کی مجموعی تعداد پر بھی فرق پڑتا ہے۔
جرمنی میں صوبائی اور وفاقی پارلیمانی اداروں کے ارکان کا انتخاب افراد کی بنیاد پر متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت عمل میں آتا ہے۔ ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔ ایک ووٹ کسی امیدوار کو دیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار فاتح ہوتا ہے۔ دوسرا ووٹ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو دیا جاتا ہے۔ یہ دوسرا ووٹ پہلے کی نسبت زیادہ اہم ہوتا ہے اور پارلیمان میں کسی بھی جماعت کو ملنے والی اکثریت کا انحصار زیادہ تر اسی دوسرے ووٹ پر ہوتا ہے۔
اسی نظام کی وجہ سے پارلیمان میں موجودہ قوانین کی رو سے ‘معلق نشستوں‘ اور ‘ازالے کے لیے دی جانے والی پارلیمانی نشستوں‘ جیسی اصطلاحات بھی سننے کو ملتی ہیں۔
یہ اسی انتخابی نظام کا نتیجہ تھا کہ 2017ء کے وفاقی الیکشن کے نتیجے میں 598 کی طے شدہ تعداد کے مقابلے میں 709 عوامی نمائندے بنڈس ٹاگ کے رکن بنے۔
یہ عملی تعداد ارکان پارلیمان کی اصولی تعداد سے 111 زیادہ تھی۔
جرمنی کے وفاقی آڈٹ آفس کے اعداد و شمار کے مطابق بنڈس ٹاگ کے اراکین، ان کے معاون کارکنوں اور دفاتر وغیرہ پر سالانہ ٹیکس دہندگان کے تقریباﹰ ایک ارب یورو خرچ کیے جاتے ہیں۔
اس بارے میں جرمن ٹیکس دہندگان کی مرکزی تنظیم کے صدر رائنر ہولس ناگل کہتے ہیں، ”جرمنی کے لیے 500 اراکین پارلیمان کافی ہوں گے۔ ہمیں ان سالانہ رقوم میں سے کئی سو ملین یورو بچا لینا چاہییں، جو جرمن بنڈس ٹاگ پر خرچ کی جاتی ہیں۔‘‘
جرمن بنڈس ٹاگ اس وقت دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان ہے۔ اس معاملے میں جرمنی صرف چین سے پیچھے ہے، جہاں یہ پارلیمان فی زمانہ تقریباﹰ 2900 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کہلانے والی پارلیمان دراصل کمیونسٹ پارٹی کے مندوبین کا ایک اجلاس ہوتا ہے، جس میں ملک بھر سے پارٹی اہلکار حصہ لیتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ چین کی آبادی تقریباﹰ 1.4 بلین ہے اور نیشنل پیپلز کانگریس کے ارکان کی تعداد 2897۔ لیکن جرمنی کی آبادی صرف 83 ملین ہے اور وفاقی پارلیمان کے ارکان کی تعداد 709 بنتی ہے۔
جرمنی کے تقابلی سیاسیات کے معروف پروفیسر کلاؤس شٹُیووے کہتے ہیں، ”بین الاقوامی سطح پر موازنہ کیا جائے تو جرمنی کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں وفاقی ارکان پارلیمان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسے کم کیا جانا چاہیے۔ ارکان کی تعداد میں کمی سے جرمنی میں پارلیمانی جمہوریت کے معیار پر تو ظاہر ہے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
دنیا کے دو سب سے بڑے پارلیمانی اداروں کے طور پر چین اور جرمنی کا موازنہ کیا جائے تو چین میں ایک رکن پارلیمان اوسطاﹰ پونے پانچ لاکھ شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے برعکس جرمنی میں ہر ایک لاکھ سترہ ہزار شہریوں کے لیے ایک رکن پارلیمان موجود ہے۔