جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا بحران کے دوران دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خاموشی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ وہ قرارداد ہے جس پر امریکا اور چین کے مابین ایک طویل عرصے سے تنازعہ چلا آ رہا تھا۔ اب سلامتی کونسل نے جرمنی کی قیادت میں اس کی منظوری دے دی۔
کورونا کے بحران کے دوران دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خاموشی کو یقینی بنانے سے متعلق قرارداد کی منظوری دے کر سلامتی کونسل نے مہینوں سے امریکا اور چین کے مابین تنازعے کا باعث بنے ہوئے ایک اہم موضوع پرعالمی برادری کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ امر جرمنی کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپی ملک اس وقت سلامتی کونسل کی قیادت کر رہا ہے۔
تین ماہ سے زیادہ عرصے سے بحث و مباحثے کے بعد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر متنازعہ کورونا قرار داد کو منظور کر لیا ہے۔ یہ جرمنی کے لیے ایک خوش آئند امر ہے کیونکہ بدھ یکم جولائی سے ایک ماہ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدرارت جرمنی نے سنبھالی ہے۔ جرمنی کے لیے یہ ایک کامیاب آغاز کی علامت ہے۔
فرانس اور تیونس کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے متن میں بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کی طرف سے کورونا وائرس کی وباء کے دوران مسلح تنازعات روکنے کے مطالبے کی حمایت کی گئی ہے۔ استثنائی طور پر صرف جہادیوں کے خلاف فوجی آپریشن کی اجازت ہو گی۔ اس کے علاوہ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے موجودہ بحران کے دوران کم سے کم 90 دن کا ”انسان دوست وقفہ‘‘ بھی ضروری ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امدادی سامان پہنچایا جا سکے۔
سلامتی کونسل کی دو ویٹو طاقتوں امریکا اور چین کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اور تنازعہ اس قرارداد کی منظوری کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ دیگر موضوعات کے علاوہ مرکزی نکتہ جس پر سوال اٹھایا جا رہا تھا وہ یہ تھا کہ آیا اس قرارداد کی متن میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا ذکر شامل ہونا چاہیے یا نہیں؟ ویٹو پاور امریکا، جو ڈبلیو ایچ او پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ یہ عالمی ادارہ کورونا بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے، جبکہ چین آخری لمحوں تک اس کی وکالت اور حمایت کرتا رہا۔
منظور شدہ قرارداد کے متن میں تاہم ڈبلیو ایچ او کا نام براہ راست شامل نہیں ہے بلکہ اس میں ”اقوام متحدہ کے نظام کے تمام متعلقہ حصے‘‘ جیسی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے عالمی بحران اور عالمی سطح پر صحت عامہ کو لاحق خطرات کو زیادہ سے زیادہ محسوس کیا جانے لگا۔ اس پس منظر میں 15 رکنی سلامتی کونسل کے متعدد اراکین کی طرف سے مذکورہ قرارداد کے حوالے سے تنازعے کو ”شرمناک اور پاگل پن‘‘ قرار دیا گیا تھا۔
اب جب کہ سلامتی کونسل نے اس قرارداد کی منظوری دے دی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس کے عالمی تنازعات پر کیسے اثرات مرتب ہوں گے۔ اب بھی اس کے مؤثر ہونے کے بارے میں بڑی حد تک غیر یقینی پائی جاتی ہے۔