اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اورینٹ ایئرویز ایک نجی کمپنی تھی لیکن اسے محمد علی جناح کے کہنے پر ہی قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت یہی سب سے بڑی فضائی کمپنی پاکستان میں آپریٹ کر رہی تھی اور اسی کمپنی کو ضم کرتے ہوئے پی آئی اے کی بنیاد رکھی گئی۔
اورینٹ ایئر ویز لمیٹڈ کلکتہ میں 1946ء میں قائم کی گئی تھی۔ یہ تقسیم سے پہلے ہندوستان کی پہلی اور واحد مسلم ملکیتی ایئر لائن تھی۔ اسے مسلم کاروباری خاندانوں نے محمد علی جناح کے کہنے پر قائم کیا۔ ابتدائی سرمایہ کاری اس وقت کے بڑے تاجروں مسٹر ایم اے اصفہانی، آدمجی اور اراگ گروپ کی طرف سے کی گئی تھی۔ مرزا احمد اصفہانی اس کے پہلے چیئرمین بنے۔ اورینٹ ایئر ویز کے آغاز کے دو ماہ بعد ہی پاکستان معرض وجود میں آیا۔
تقسیم کے فورا بعد حکومت پاکستان نے اورینٹ ایئرویز اور برٹش اوورسیز ایئرویز (بی او اے سی) کارپوریشن سے چارڈرڈ طیارے حاصل کیے تاکہ دہلی اور کراچی کے درمیان ریلیف آپریشن شروع ہو سکے۔ اس دوران اورینٹ ایئرویز نے بھی اپنا ہیڈکوارٹر کلکتہ سے کراچی منتقل کر دیا۔ یہ نجی کمپنی برصغیر کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھی اور 1955ء کو حکومت پاکستان نے اس ایئر لائن کو ضم کرتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی بنیاد رکھی۔
اسی برس پی آئی اے نے لندن کے لیے اپنی پہلی پرواز کا براستہ قاہرہ اور روم آغاز کیا۔ 1956ء میں نئے جہاز خریدے گئے۔ پی آئی اے کے مطابق سن 1962ء میں اس ایئرلائن نے تاریخی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے لندن سے کراچی تک کا فاصلہ چھ گھنٹے تینتالیس منٹ میں طے کیا۔ بعدازاں یہ ایئرلائن ترقی کی منازل طے کرتی رہی، یہاں تک کہ سن 1985ء میں امارات ایئرلائن کا آغاز بھی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) سے طیارے لیز پر لے کر کیا گیا تھا۔
امارات ایئرلائن گزشتہ اکتیس برسوں سے ایک منافع بخش کمپنی بن چکی ہے اور دبئی ایئرپورٹ سن دو ہزار چودہ سے ہیتھرو ایئرپورٹ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے مصروف ترین ایئرپورٹ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کو مسلسل خسارے کا سامنا ہے۔
ایوی ایشن امور کے ماہر ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ عابد راؤ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی تباہی میں پاکستان کی سابقہ حکومتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے، ”لوٹ مار، اقرباء پروری، بے دریغ ملازمین کی سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں نے ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔‘‘ ان کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آصف علی زرداری جب صدر پاکستان بنے تو انہوں نے سب سے پہلے ماضی میں نکالے گئے تمام ‘جیالے ملازمین‘ کو دوبارہ ملازمتوں پر بحال کر دیا اور ان کے تمام واجبات بھی ادا کروائے، ”اسی طرح مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما مشاہد اللہ خان نے بھی اپنے خاندان کو ملازمتین دلوائیں۔ پی آئی اے کے بیرون ملک سب سے اہم اسٹیشنز، دبئی، نیویارک اور برطانیہ میں اپنے بھائیوں کو اسٹیشن منیجر تعینات کر دیا۔‘‘ دوسری جانب مشاہد اللہ خان اپنے لگائے جانے والے ایسے الزامات کی کئی مرتبہ تردید کر چکے ہیں۔
ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ عابد راؤ کا مزید الزامات عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افسران پر حکومتی دباؤ بھی ادارے کی تباہی کا بڑا سبب بنا، ”کسی اہم عہدے پر تقرری، پسندیدہ ایئر ہوسٹس اور کپتانوں کو بیرون ملک فلائٹ پر ٹریڈ یونین کی مرضی سے بھیجا جاتا تھا۔‘‘ ایئر مارشل عابد راو نے کہا کہ بیرون ملک دوروں کے لیے ماضی میں ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی رہائش کا بندوبست کرنا بھی پی آئی اے کے اسٹیشن مینجر کی ذمے داری ہوتی۔
حال ہی میں یورپی یونین نے پائلٹوں کے مشکوک لائسینسوں کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستانی کی قومی ایئرلائن کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ راؤ کے مطابق کراچی طیارہ حادثے اور پائلٹوں کے لائسینسوں کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ حادثے کی مرحلہ وار کمیٹیاں بناکر تحقیقات کی جانا چاہیے تھیں لیکن حکومت نے اچھا کام غلط انداز میں کیا ہے۔
ایوی ایشن امور کے ماہر جمال احمد کا کہنا ہے کہ 24 جون کو ملکی قومی اسمبلی میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملک میں موجود آٹھ سو سے زائد پائلٹس کے لائسنسز کو مشکوک بنا دیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ پی آئی اے کی جانب سے مختلف سفارت خانوں اور بین الاقوامی ایوی ایشن اتھارٹیز کو پائلٹس کے لائسنسز کے حوالے سے خطوط بھی ارسال کیے گئے ہیں جن میں مشتبہ پائلٹس کو معطل کر کے اصل لائسنسز کے حامل پائلٹس کے پروازیں بدستور آپریٹ کرنے کا کہا گیا تھا۔
پی آئی اے کے پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پاکستان ائیر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے حکومتی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پالپا کے صدر چوہدری سلمان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستانی پائلٹ برادری کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ قومی اہمیت کے اس معاملے پر فوری جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے، جو مجاز افراد اور شعبہ کے ماہرین پر مشتمل ہو۔ کمیشن نہ صرف لائسنس کے حوالے سے مجوزہ افراد کی تحقیقات کرے کیونکہ وزارت ہوا بازی کی جانب سے جاری کردہ فہرست ہی مشکوک ہے۔ گراونڈ کئے گئے 141 میں 39 پائلٹس کا تو سرے سے ادارے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے جبکہ 36 پائلٹس کی معلومات غلط ہیں۔‘‘
پاکستانی وزیر کی جانب سے ملک کے تقریباً ڈھائی سو پائلٹس کے لائسنسز جعلی ہونے کے بیان نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستان پائلٹس اور دیگر ٹیکنیشنز کے لئے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ غیر ملکی ائیر لائنز نے بھی پاکستانی پائلٹس اور گراونڈ اسٹاف کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کویت ائیر ویز نے سات پاکستانی پائلٹس اور 56 انجینئرز کو گراونڈ کرتے ہوئے ان کے حوالے سے پاکستانی حکام سے رابطہ کیا ہے جبکہ قطر، عمان اور ویتنام کی فضائی کمپنیوں نے بھی پاکستانی ملازمین خصوصاﹰ پائلٹس، انجینئرز اور گراونڈ اسٹاف کی فہرستیں مرتب کر لی ہیں۔
ایئر کموڈور شہزاد کے مطابق عمران خان کی حکومت نے چینی، آٹا بحران سے لے کر طیارہ حادثے تک ہر تحقیقات کا برا حال کیا ہے، ”بھلا ایک طیارہ حادثے کی تحقیقات میں دو اداروں کا دنیا میں مذاق بنانا کیا ضروری تھا؟‘‘
ان کا کہنا تھا، ”دراصل ملک میں فضائی حادثوں کے ذمہ داروں نے بہت خوبصورتی سے سالوں سے جاری اربوں روپے کرپشن اور کوتاہیاں چھپانے کے لئے حکومت کو اندھیری گلی میں دھکیل دیا ہے۔ اب نہ کوئی یہ پوچھے گا کہ جنرل مشرف کے دور میں میڈیکل کا بجٹ ایک ارب سے نواز شریف کے دور میں چار ارب کیسے ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کی سابق رہنما ناہید خان نے 40 افراد کی بھرتی کے لیے فہرست بھیجی تو اس پر 400 سو افراد کیسے بھرتی ہو گئے؟ انتظامیہ کے علاوہ ٹریڈ یونین کے عہدیدار ادارے کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا کچھ کرتے رہے ہیں؟ یورپی یونین کی جانب سے عائد پابندی تو آغاز ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ائیرفورس سے ریٹائر ہونے والی ایک بڑی تعداد کو بھی سول ایوی ایشن اور پی آئی اے میں کھپایا گیا ہے، جو اداروں میں بگاڑ کی اہم وجہ ہے۔