کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ برس چار اگست کی رات اس قدر تاریک تھی کہ اگلے تقریباً سات ماہ تک کسی بھی بھارت نواز یا بھارت مخالف سیاسی پلیٹ فارم سے کوئی ہلکا پھلکا بیان تک سامنے نہیں آیا اور سیاست دانوں کے تارے گردش میں ہی رہے۔
تاہم اب مہینوں بعد اہم قائدین کی رہائی کے عمل کے ساتھ ہی آہستہ آہستہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں اور یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ غالباً بھارت نواز پارٹیوں کو نئی دہلی کی طرف سے ‘سیاسی عمل‘ کی بحالی کا ہلکا اشارہ مل چکا ہے اور شاید بیانات دینے کی ہری جھنڈی بھی۔
پانچ اگست کی صبح بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں ایک چونکا دینے والے فیصلے کا اعلان کیا جس میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی بھارتی آئین کے تحت حاصل ریاستی حیثیت اور خصوصی داخلی خودمختاری ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس متنازعہ ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں بھی تقسیم کر دیا کیا۔
اب آہستہ آہستہ کشمیر کے سیاسی ماحول میں تھوڑی بہت تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ حالانکہ تین سو سے زائد دن گزرنے کے بعد بھی ہائی اسپیڈ 4G انٹرنیٹ کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے اور سینکڑوں افراد اب بھی نظر بند ہیں۔
دریں اثناء جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبدللہ اور عمر فاروق کے علاوہ کئی ہند نواز جماعتوں کے اہم قائدین کی عارضی اور احتیاطی نظر بندی سے رہائی کے بعد نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)، پیپلز کانفرنس، پیپلز موومنٹ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے آشیرواد سے تخلیق کی گئی ‘اپنی پارٹی‘ کی طرف سے تابڑ توڑ سیاسی بیانات سامنے آنے لگے ہیں۔
مہینوں کی زبان بندی کے بعد نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے نہ صرف پانچ اگست کے بھارتی فیصلے کی پُرزور مخالفت کی ہے بلکہ اپنے بیانات میں یہ دونوں جماعتیں اب شہریت کے نئے قانون اور دیگر متنازعہ فیصلوں پر بھی مسلسل کڑی نکتہ چینی کر رہی ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے اعلیٰ ترجمان آغا روح اللہ مہدی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا، ”شہریت کا نیا قانون غیر قانونی ہے۔ اس کے تحت غیر کشمیریوں کو جموں و کشمیر میں بسانا مقصود ہے اور اس عمل کے ذریعے کشمیری عوام کو سیاسی، معاشی و نفسیاتی طور پر مزید کمزور کیا جا رہا ہے۔‘‘
مہدی نے مزید کہا کہ نئی دہلی کی پالیسیوں نے اب کشمیری لوگوں کو اس غم میں مبتلا کر دیا ہے کہ ‘ان کے جمہوری حقوق تلف ہونے کے بعد اب ان کی زمین و جائیداد کا کیا حشر ہوگا؟‘
بھارتی حکومت نے پانچ اگست کے اپنے متنازعہ فیصلے کے بعد ایک اور حیران کن فیصلے میں جموں و کشمیر میں شہریت کا نیا قانون متعارف کرایا جس کے نتیجے میں بھارت کی مختلف ریاستوں کے باشندے بھی اب کشمیری شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔ بلکہ اس حوالے سے باضابطہ عمل کا آغاز بھی ہوچکا اور ایک ہفتے کے اندر ہی کم از کم تیس ہزار افراد نے شہریت کی نئی سند حاصل کی ہے جن میں بھارتی ریاست کے نوکر شاہ یا سینیئر بیروکریٹ نوین چودھری قابل ذکر ہیں۔
گزشتہ سال پانچ اگست سے قبل دفعہ 35 اے کی بدولت جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کشمیریوں کی شہریت واضح کرے جس کے نتیجے میں ان شہریوں کو زمین، جائیداد، ملازمت اور اسکالر شپ وغیرہ پر خصوصی اختیار حاصل ہوا کرتا تھا۔ بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کا قانونی حق حاصل نہیں تھا لیکن اب زمینی حقائق تبدیل کر دیے گئے ہیں اور سب کچھ بدل گیا ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبدللہ اور عمر فاروق کے علاوہ کئی ہند نواز جماعتوں کے اہم قائدین کی عارضی اور احتیاطی نظر بندی سے رہائی عمل میں آ چکی ہے۔
بہرکیف اپنے ایک مشترکہ بیان میں نیشنل کانفرنس کے اہم قائدین نے نئی دہلی پر واضح کردیا کہ اسے پانچ اگست سے پہلے والی ریاست کی خصوصی پوزیشن بحال کرنا ہوگی تاہم ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت بھر میں دفعہ 370 کو ہٹانے کے اپنے فیصلے کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے۔ تاہم مہاراشٹر میں حکمران ہندو شدت پسند تنظیم شیو سینا نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ ‘‘کشمیر میں دہشت گردی ختم کرنے” کے اس کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔
سری نگر میں قائم یونیورسٹی آف کشمیر میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پولیٹیکل سائنس پڑھانے والے ماہر سیاسی تجزیہ نگار نور محمد بابا کہتے ہیں کہ کشمیر میں ہند نواز جماعتوں کی تازہ بیان بازی کے پیچھے ‘اندرونی اور بیرونی عنصر‘ شامل حال ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں نور بابا نے بتایا، ”لداخ میں حد متارکہ پر چین، بھارت کشیدگی اور چین کے کشمیر پر کئی بیانات اور اندرونی طور پر نیشنل کانفرنس کے حمایتیوں کے دباؤ سے اس جماعت کو ہمت ملی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نیشنل کانفرنس برسوں سے کشمیر کی اٹانومی کا نعرہ لگا رہی ہے اور داخلی خودمختاری سے کنارہ کشی اس جماعت کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہے: ”نیشنل کانفرنس کا سیاسی وجود اٹانومی پر ہی منحصر ہے۔‘‘
بہرحال دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آزادی پسند کُل جماعتی حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے نے بھی 11 ماہ تک بالکل خاموش رہنے کے بعد دو جولائی کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس نے ‘تنازعہ کشمیر کے پُر امن حل‘ کا اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا اور اس حوالے سے ‘بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے نمائندوں کے مابین گفت و شنید‘ پر بھی زور دیا۔
پانچ اگست کی صبح بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں ایک چونکا دینے والے فیصلے کا اعلان کیا جس میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی بھارتی آئین کے تحت حاصل ریاستی حیثیت اور خصوصی داخلی خودمختاری ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس متنازعہ ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں بھی تقسیم کر دیا کیا۔
در اصل میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کانفرنس کے دھڑے کا بیان بُزرگ رہنما سید علی گیلانی کی جانب سے حریت کانفرنس کے اپنے علٰیحدہ دھڑے کو خیر باد کہہ دینے کے فیصلے کے فوراً بعد ہی منظر عام پر آیا۔ اس سلسلے میں میر واعظ والی حریت کے سینیئر ایگزیکٹیو ممبران نے دارالحکومت سری نگر میں ایک میٹنگ بھی طلب کی جس میں حریت کے دو سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بھٹ اور مولانا عباس انصاری کے علاوہ بلال غنی لون نے بھی شرکت کی۔ گھر میں مسلسل نظر بند رہنے کے باعث میر واعظ اس میٹنگ میں ذاتی طورپر شریک نہیں ہوسکے تھے۔
باوثوق ذرائع نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حریت کا یہ اجلاس مولانا انصاری کی رہائش گاہ پر ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ حریت رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے 11 ماہ سے آپس میں مل نہیں پائے تھے اور ‘یہ ایک معمول کی میٹنگ تھی‘۔ یہ بھی بتایا گیا کہ در اصل انصاری کی طبیعت ناساز تھی اور اجلاس کے انعقاد کا ایک مقصد ان کی بیمار پرسی کرنا بھی تھا۔
کشمیری عوام کی غالب اکثریت میں غم و غصے کی شدید لہر پائی جاتی ہے کیونکہ حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند اور پاکستان نواز گروپوں کی طویل خاموشی سے انہیں بڑی مایوسی ہوئی ہے۔
کشمیر امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ نگار ریاض وانی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ کشمیر میں سیاسی قیادت نے لوگوں کو ایک ایسے مرحلے پر ‘تن تنہا چھوڑ دیا اور اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیا جب اسے عوام کی رہنمائی کرنا تھی‘۔ ریاض وانی کے بقول یہ ایک ایسا ہی ناپسندیدہ عمل تھا جیسے کہ ‘گہرے پانی میں ڈوبتے ہوئے شخص کو تنہا چھوڑنے کا عمل ہے‘۔
کشمیریوں کو درپیش اہم ترین معاملات پر حریت کانفرنس کی معنی خیز خاموشی پر بعض تجزیہ نگار یہ تک کہہ گئے کہ در اصل ‘حریت ایک افواہ تھی جو گزشتہ سال پانچ اگست کو ہی اڑ گئی‘۔ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سیاست دان ہی اہم ترین سیاسی معاملات پرچپ سادھ لیتے ہیں تو اس پر تجزیہ نہیں بلکہ ماتم کیا جاتا ہے۔
حریت کی خاموشی کا دفاع کرنے والوں کی یہ دلیل ہے کہ بھارتی حکام نے پانچ اگست کے فیصلے سے قبل ہی جملہ قیادت کے علاوہ تقریباً 13 ہزار افراد کو حراست میں لیا تھا اور ان میں سے بیشتر کو نئی دہلی کے علاوہ بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور راجستھان کی مختلف جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ حریت کانفرنس ایک جماعت نہیں بلکہ 20 سے زائد مختلف سیاسی، مذہبی اور کاروباری پارٹیوں پر مشتمل ایک ہند مخالف سیاسی پلیٹ فارم ہے جو سن 1993ء میں وجود میں آیا۔
بھارتی وزارت داخلہ نے پانچ اگست کے فیصلے سے قبل ہی جماعت اسلامی جموں و کشمیر اور آزادی کی حامی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو ممنوعہ قرار دے کر ان دونوں ہی جماعتوں کے اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ وزارت داخلہ نے پارلیمان میں کشمیر میں حراستوں پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ اعتراف کیا تھا کہ سات ہزار سے زائد کشمیریوں کو احتیاطی طور پر حراست میں لیا گیا۔
تاہم سری نگر میں قائم جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نامی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق حراست میں لیے گئے کشمیریوں کی تعداد 13 ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ کولیشن کے مطابق رواں سال کے چھ ماہ میں کشمیر میں 229 افراد تشدد کی مختلف وارداتوں میں مارے گئے ہیں جن میں 143 عسکریت پسند اور 32 عام شہری ہیں۔ مرنے والوں میں بھارتی فوج، نیم فوجی دستوں اور ریاستی پولیس کے 54 اہلکار بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔
آئے روز کے پرتشدد واقعات کے درمیان اب جبکہ مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کے بیانات ایک تسلسل کے ساتھ آنا شروع ہوگئے ہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کشمیر میں سیاسی عمل کا باقاعدہ آغاز کب اور کیسے ہوگا؟ اس کے اشارے تو مل رہے ہیں۔