مجبور بے بس لاچار غمزدہ باپ کی آہوں ، سسکیوں ، ہچکیوں اور آہ و بکا ہ سے کمرے کے درو دیوار لرز رہے تھے ماحول کی سوگواریت ہما رے اندر تک اتر چکی تھی لگ رہا تھا دکھی باپ کے غم میں ہر چیز نے ماتمی لباس پہن لیا ہے ۔ میں بے بسی کے کو ہ ہما لیہ پر بیٹھا سو چ رہا تھا کہ کس طرح اِس بے بس غمزدہ باپ کی مدد کروں اِس کے چہرے پر خوشی کے رنگ بکھیر سکوں اِس کی سسکیوں آہوں کو خوشگوار دلنواز مسکراہٹ میں بدل سکوں غمزدہ باپ صبر و استقامت کا پہاڑ تھا اس کے 4بچے شدید معذور تھے لیکن اِس نے رب کا شکرادا کیا گلی گلی گاں گاں شہرشہر وطن عزیز کے گوشے گو شے میں بچوں کی صحت کی بھیک مانگنے گیا ہر جگہ کشکول بن کر گیا ۔ لیکن اِس کا دامن خالی کا خالی ہی رہا زندگی کی آگ برساتی سلگتی حقیقتوں کا صبر سے مقابلہ کیا لیکن جب اکلوتی بیٹی کی خوشیوں کو گہن لگا تو باپ کا پیما نہ صبر چھلک پڑا باپ بیٹی کے عظیم رشتے کے گداز اور نزاکت کو وہی سمجھ سکتے ہیں جن کی بیٹیاں ہیں جو بیٹیوں کا درد محسوس کر تے ہیں کیونکہ بیٹیاں تو معصوم رنگ برنگی تتلیوں کی طرح ہو تی ہیں جو مسائل اور مصائب کی ہلکی آنچ سے ہی مرجھا جا تی ہیں یہ معصوم کلیاں مو سم کی ذرہ سی سختی سے ہی پھیکی پڑ جا تی ہیں باپ جو ہر مشکل پر مسکراتا رہا لیکن جیسے ہی بیٹی کے معصوم چہرے پر اداسی کا رنگ اترا تو برداشت سے باہرہو گیا بیٹی کسی بھی باپ کا حساس حصہ ہو تا ہے میں نے بڑے بڑے مضبوط اعصاب کے والدین کو دیکھا ہے جو وہ بیٹی کی خوشیوں کی بھیک مانگنے کے لیے دردر دھکے کھا رہے ہو تے ہیں لوگوں کے پاں پکڑ کر التجا ئیں کر رہے ہو تے ہیں بیٹی کے سسرال والوں کے سامنے نظریں جھکائے ہا تھ جو ڑے بیٹھے معافیاں مانگ رہے ہو تے ہیں جو اپنی بیٹی کی کردہ اور نا کردہ غلطیوں کی بلا مشروط معافیاں مانگ رہے ہوں اپنی جان جا ئیداد اور ساری دولت دے کر بھی بیٹی کی خوشیاں خریدنے کو تیار ہو تے ہیں۔
اپنی بیٹی کے سہاگ کی سلامتی اور خوشیوں کے لیے کس طرح مغرور دنیا دار لوگوں اور سسرالیوں کی خو شامدیں کر رہے ہو تے ہیں بلا شبہ بیٹی با پ رشتہ بہت نا زک حساس اور محبت بھر ا ہو تا ہے اِس رشتے پر ذرہ سی آنچ آئی نہیں اور با پ کی کمر غم سے جھکی نہیں با پ کی چیخیں نکلی نہیں ۔ یہ شخص بھی صبر تشکر کا پہاڑ تھا لیکن بیٹی کے غم نے اِس کو ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیا تھا اوریہ مدد مدد کر تا ہوا بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا با پ کو دیکھ کر بیٹی آگے بڑھی اور با پ سے لپٹ گئی اور باپ کے آنسو پونچھتے ہو ئے بار بار کہہ رہی تھی ابو آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کے ساتھ خو ش ہو ں مجھے کو ئی دکھ نہیں مجھے آپ کے علاوہ کسی کی ضرورت نہیں بیٹی کے غم کو دیکھ کر مجھے پا کستانی معاشرے کے بانجھ پن اور بے حسی پر دکھ ہو رہا تھا کہ ہما را معاشرہ کو فہ بن چکا ہے ہر گھر گلی اور شہر میں جگہ جگہ زینب مدد مدد پکار رہی ہے لیکن ہما را معا شرہ تو کو فہ بن چکا ہے جو کسی بھی زینب کی مدد اور پکار سننے کو تیار نہیں ہم جو محرم کے چند دن حضرت زینب کے لازوال کر دار اور شجاعت پر تقریریں کر تے ہیں یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کر تے کہ آج بھی ہما رے معاشرے کے ظلم کی چکی میں کتنی زینبیں پس رہی ہیں کو ئی ان کی مدد کو تیا ر نہیں معا شرے کی بے حسی پر یہی احساس ہو تا ہے کہ ہما را معا شرہ صحت مند اصلاحی معا شرہ نہیں رہا بلکہ کو فہ بن چکا ہے جہاں کسی مظلوم کی مدد کے لیے کو ئی بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔
باپ بیٹی کے آنسو دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی مو تیوں کی لڑی مسلسل جھڑ رہی تھی میں مجرموں کی طرح بیٹھا تھا کیونکہ میں بھی اِسی گلے سڑے معاشرے کا حصہ تھا جہاں ہر روز معصوم مظلوم بچیوں پر درد ناک مظالم ڈھائے جا تے ہیں آخر کار میں ہمت کر کے آگے بڑھا بیٹی کے سر پر شفقت بھرا ہا تھ رکھا اور با پ کے کندھے پر ہا تھ رکھا اسے بار بار حوصلہ دیا اور جب غمزدہ باپ کچھ نا رمل ہوا تو میں ملتجی لہجے میں کہا جناب میں آپ کی کس طرح مدد کروں مجھے حکم کر یں میں اپنی جان دے کر آپ کے لیے خو شیاں خرید سکوں بتائیں میں کیا کروں تا کہ آ پ کی ویران زندگی میں پھر سے بہار آجائے ۔ با پ خا موش گہری نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا پھر درد ناک لہجے میں بولا کیا آپ میرے داماد کو واپس میرے گھر لا نے میں میری کو ئی مدد کر سکتے ہیں کو ئی ایسا عمل وظیفہ یا طریقہ ہے کہ میرا داماد خو شی سے ہما رے گھر واپس آجا ئے میری بیٹی کے چہرے پر پھر سے بہار کے رنگ بکھر جا ئیں اِس کی آنکھوں کی چمک پھر سے تیز اور گہری ہو جا ئے کیا آپ اِس معا ملے میں میری کو ئی مدد کر سکتے ہیں ۔
میں حیران تھا کہ با پ چار بچوں کی شدید معذوری کو بھول چکا تھا ذہنی طور پر قبول کر چکا تھا بیٹی کی مانگ میں خوشیاں بھرنا چاہتا تھا میں نے بار بار با پ اور بیٹی کو حوصلہ دیا کہ رحمن رحیم کریم کو ئی راستہ ضرور نکالے گا اور پھر میں نے جا ئے نماز منگوائی اور الگ کمرے میں نماز اور حاجت کے نوافل شروع کیے سر سجدے میں رکھا اور مالک بے نیاز کے سامنے بہت رویا بہت مدد مانگی دیر تک خدا کے حضور التجا ئیں کر تا رہا کہ اے ربِ کعبہ تو نے ہر مشکل قدم پر میری مدد کی میری عزت رکھی آج مجھے زندگی میں سب سے زیادہ تیری مدد کی ضرورت ہے اے خدا آج کے بعد تو میری کو ئی دعا قبو ل نہ کر نا پر پلیز میری اِس معاملے میں مدد کر بہت رویا بہت رویا اور پھر مجھے سکون سا آگیااور پھر اچانک ایک خیال بجلی کی کو ندے کی طرح میرے دماغ میں لپکا میرا ایک دوست لا ہور میں رہتا تھا جو اِسی شہر کا تھا میں نے اس کا نمبر ملا یا اور اس کو ساری بات بتا ئی اس نے مجھے شہر کے ایک شریف اور با اثر انسان کا پتہ اور نمبر دیا اور کہا میں اس کو فون بھی کر دیتا ہوں اور پھر میں اس شریف انسان کے پاس پہنچا اس کو میرا دوست فون کر چکا تھا وہ پہلے سے ہی میرے انتظار میں تھا اچھی طرح ملا اور ساری بات سنی با ت سن کر اس کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی بہت دکھی ہوا اور کہا چلو ابھی اس لڑکے کی طرف جا تے ہیں۔
راستے میں اس نے لڑکے کے قریبی رشتے دار کو بھی بلایا جو لڑکے والوں کا بڑا اور با اثر بندہ سمجھا جا تا تھا راستے میں لڑکے کا رشتہ دار بھی مل گیا اس کو بات جب بتائی تو وہ بہت حیران ہوا کہ اسے یہ با ت اور طرح سے بتائی گئی تھی اور پھر ہم اس لڑکے کے گھر کی طرف چل پڑے کیونکہ اب اللہ کی مدد آچکی تھی اِس لیے اب کڑیا ں خو د ہی ملتی جا رہی تھیں اللہ تعالی کو ہم پر ترس آچکا تھا اور پھر ہم اس داماد لڑکے کے گھر پہنچ گئے سارے گھر والے موجود تھے با ت چیت شروع ہو ئی لڑکے کو معمولی عتراضات تھے کہ میں اپنا کا روبار شروع کر نا چا ہتا ہوں تو میرے ساتھ جانے والے شریف انسان نے کہا میری شہر میں کئی دوکانیں ہیں جو تم کو پسند ہے لے لو اور واپس اپنی بیوی اور سسرال کے پاس چلے جا بہت ساری جذبا تی باتوں کے بعد داماد اور اس کے ماں با پ مان گئے بلکہ معذرت خوا ہ ہو ئے کہ واقعی ہم سے ظلم ہوا ہے دوبارہ زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہو گا اور واقعی ہم سے ظلم ہو رہا تھا یقینا داماد اور گھر والوں کے ضمیر جا گ اٹھے تھے اللہ کی مدد آچکی تھی اور پھر داماد اس کے گھر والے اور با قی لو گ ہم غمزدہ با پ کی طرف آئے ہم سب کو دیکھ کر غمزدہ با پ بیٹی اور ماں کے چہروں پر خو شیوں کے پھول کھل اٹھے اور میں خو شیوں سے اپنا دامن بھر کر لا ہور کی طرف روانہ ہوا آج بھی جب کو ئی عبا دت گزار عبا دت کا غرور کر تا ہے تو مجھے صبر اور شکر کا پہا ڑ وہ شخص یا د آجا تا ہے جس کے سامنے ہما رے جیسے کیڑوں مکوڑوں سے بھی کم ہیں آج کئی سال ہو گئے وہ ہنسی خو شی رہہ رہے ہیں مجھے جب بھی خدا کی رحمتیں یا د آتی ہیں تو بو ڑھے با پ کی آنکھوں میں خوشی کے دو آنسو یا د آتے ہیں جن کو یاد کر کے میری روح خو شی سے جھومنے لگتی ہے کہ اے خدا جب بھی مشکل پڑی تیری رحمت مو سلا دھا ر برسات کی طرح خوب برسی۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org