ڈپریشن کیا ہے ؟ مایوسی ، یاسیت، نآامیدی یہ ہی تو ہے بے بسی کا ایک خوفناک دورہ اور اگر اسے ہر تکلیف اور بیماری کا آغاز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
انسان جب خود کو تنہا مان لے ، ہارا ہوا تسلیم کر لے تو گویا اس نے زندگی کی جنگ میں ہتھیار پھینک دیئے۔ اب اسے جیت اور ہار سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔
ان میں سے کسی بھی کیفیت کے شکار انسان پر کسی بھی بیماری کا حملہ بیحد آسان ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کا مدافعتی نظام یعنی ایمیونٹی سسٹم کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس پر معمولی سی بیماری کا حملہ بھی جان لیوا شکل اختیار کر سکتا ہے ۔
وہ کسی اور کو نقصان پہنچانے سے زیادہ اپنے آپ کو مٹانے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ ایسا انسان خود کو ریزہ رہزہ ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ خود کو ہواوں میں بکھرتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ اسے کبھی تنہا مت چھوڑیئے ۔ کیونکہ
وہ باآسانی خودکشی پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کا سب سے ناکارہ ترین وجود سمجھنے لگتا ہے ۔۔جس کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ جو ایک بوجھ ہے جسے دوسرے مجبورا ڈھو رہے ہیں ۔
اپنے اردگرد اپنے رشتوں اور دوستوں کے رویوں پر نظر رکھیئے۔ ایسے انسان کو جس میں اس کی ہلکی سی بھی جھلک محسوس ہو اس کے دوست احباب اور عزیزوں پر اہم زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے تنہا نہ چھوڑیں ۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں ۔ اسے یقین دلائیں کہ وہ ان سب کے لیئے اہم ہے ۔ آپ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی باتوں کو ، اسکے وجود کو اسکے ہونے اور نہ ہونے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اس اس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں ۔
اسے اس بات کا یقین دلائیں کہ ہر طرح کا وقت ہر انسان پر آتا ہے اور وہ ان سب کو پار کر جاتا ہے ان کے لیئے جو اس کے لیئے اہم ہوتے ہیں ۔
وہ لوگ جو اپنے اندر ان علامات میں سے کوئی ہلکی سی علامت بھی محسوس کریں تو اسے معمولی سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں ۔ سب سے پہلے کھلی فضا میں قدرتی ماحول میں سانس لینے کا اہتمام کریں ۔۔اللہ تعالی کا پیدا کیا ہوا سبزہ دیکھے اپنی آنکھوں کو تراوٹ دے ۔ پریشان کن ماحول سے نکلے ۔ کچھ روز کے لیئے اللہ کی بنائی زمین کے سرسبز گوشے میں گزارے لیکن اپنے دماغ کو ہر نفع نقصان کی پرواہ سے آذاد کر کے ۔ اپنے اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائے
باوضو رہے ۔ پبجگانہ نمازوں کا اہتمام کرے ۔ اپنے مقدر پر یقین رکھے ۔ اور خود کو یاد دلائیں کہ ایک وہی ذات ہے جو ہم سے زیادہ ہمارے ارادے بھی جانتی ہے اور ہمیں پسندیدہ شے دے نہ دے لیکن جو دیتی ہے وہ ہی ہمارے لیئے سب سے بہتر ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ ہمارا مددگار ہونے کا نہ کوئی دعوی کر سکتا ہے اور نہ ہی عمل۔ اور سب سے خاص بات کہ اتنا مہربان ہے کہ کبھی ہم سے جدا بھی نہیں ہوتا ۔ جبکہ دیکھیں تو ایک وقت میں ہمارا سایہ تک ہمارے ساتھ نہیں رہتا ۔ لیکن اللہ تو ہم سے کسی ایک پلک چھپکنے جیسے پل کے لیئے بھی ہم سے جدا نہیں ہوتا ۔ ایسے بے مثال محبت کرنے والے کے ہوتے ہوئے اگر ہم مایوس ہو جائیں تو اس محبوب کی محبت کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ۔ وقتی طور پر ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ مالی نقصان ہو گیا ، رشتے کھو دیئے ، کبھی کہیں عزت کم ہو گئی ، کہیں کوئی منصوبہ پورا نہ ہو سکا ، کسی امتحان میں فیل ہو گئے۔۔۔
لیکن اس کے بدلے ہمیں کن کن فوائد سے نوازہ گیا یا اس کے بدلے میں ہمیں کس کس مشکلات سے بچا لیا گیا یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جانا ہی ہمیں مایوس کر دیتا ہے ۔ جبھی تو مایوسی کو کفر کہا گیا کیونکہ یہ انسان کو ناشکرگزاری کی آخری منزل تک پہنچا دیتی ہے اور انسان اپنے محبوب رب کو ناراض کر بیٹھتا ہے ۔ زندگی بھی گنواتا ہے اور آخرت بھی تباہ کر لیتا ہے ۔
اللہ کو اپنے دل کا حال سنائیے آدھی رات کے خاموش سجدوں میں ۔
آنسو بہائیے اپنے دل کا بوجھ اتاریئے اس مہربان کی چوکھٹ پر ۔ اس کی باتیں سنیئے اس کے کلام پاک کی تلاوت میں ۔ اور پا جائیے اپنے دل کا ابدی سکون ۔