لداخ (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی تجارت اور اقتصادی روابط پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی معاشی تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے، یہ کشیدگی دونوں کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہو گی۔
لداخ اور سکم میں چینی اور بھارتی افواج کے مابین حالیہ جھڑپوں اور کشیدگی کے بعد بھارت میں داخلی سطح پر چین مخالف جذبات میں خاصا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ کئی حلقوں میں چینی اشیا و مصنوعات پر مکمل پابندی کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ سڑکوں پر عوام کے جذبات اور ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ مواد میں ‘چین کو سبق سکھا کا پیغام واضح ہے۔
پیر چھ جولائی کو نئی دہلی حکومت نے انسٹھ چینی ایپس پر پابندی کا اعلان کیا۔ ان میں عالمی سطح پر مشہور اسمارٹ فون ایپ ٹِک ٹاک بھی شامل ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ چینی کمپنیوں کو شاہراہوں پر تعمیراتی منصوبوں میں کام کاج سے روکا جا رہا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی کمپنیوں میں چینی سرمایہ کاری کو بھی رکوا دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اطلاعات ہیں کہ بھارتی بندرگاہوں پر چینی ساز و سامان کو رکوا دیا گیا ہے اور حکام ان پر اضافی محصولات عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ‘دا انڈیئن ایکسپریس کے مطابق چین میں بھارتی برآمدات کو بھی کچھ ایسے ہی برتا کا سامنا ہے۔
امریکی جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی اقتصادی امور کے ماہر پراوین کرشنا کا کہنا ہے کہ تجارتی کشیدگی چاہے علامتی ہی کیوں نہ ہو، کاروبار و اقتصادیات کے لیے اچھی نہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا فی الوقت یہ واضح نہیں کہ کون کون سا سامان بندرگاہوں پر روکا جا رہا ہے اور اسے کتنی مدت کے لیے روکا جائے گا۔ اس کا کاروبار پر اثر آئندہ چند دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ ان کے بقول زیادہ تر کاروبار کچھ تاخیر تو سہ لیں گے مگر مکمل پابندی برداشت نہیں کر پائیں گے۔
گو کہ اس وقت بھارت میں رائے عامہ چینی مصنوعات پر پابندی کے حق میں ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تجارتی و اقتصادی روابط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ پابندی دونوں کے مفاد میں نہیں۔ سن 2018 اور 2019 میں بھارت اور چین کے مابین باہمی تجارت کا حجم اٹھاسی بلین ڈالر رہا۔ تاہم اس تجارت میں بھارت کو ساڑھے ترپن بلین ڈالر کے خسارے کا سامنا رہا، جو کسی بھی ملک کے ساتھ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔
چین بھارت کے لیے درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تین ہزار سے زائد چینی مصنوعات بھارت برآمد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت چینی سرمایہ کاری کا بھی گڑھ بنتا جا رہی ہے۔ بھارت میں ڈلیوری ایپ ‘زوماٹو اور رقم کی ادائیگی والی ایپ پیٹم میں بھاری چینی سرمایہ کاری ہے۔ بھارت میں چین کی موجودہ اور مستقبل کی سرمایہ کاری چھبیس بلین ڈالر کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔
بھارتی امور کے ماہر اور انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن کے پروفیسر سمت گنگولی کے مطابق بھارتی بندرگاہوں پر چینی مصنوعات کے پھنسنے سے بھارتی کاروبار اور مینوفیکچرنگ کا شعبہ متاثر ہو گا۔ ان کے بقول کئی اشیا کی تیاری میں چینی پرزے درکار ہوتے ہیں۔ پروفیسر گنگولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں مزید کہا کہ چین پر انحصار فوری طور پر ختم ہونا ممکن نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تجارتی کشیدگی دونوں ملکوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ دونوں ہی ممالک پہلے ہی کووڈ انیس کی وبا سے بھی بری طرح متاثر ہیں اور اس کے اقتصادی نتائج سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔