واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے باوجود وائٹ ہاؤس نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کو آگاہ کردیا ہے کہ واشنگٹن عالمی ادارہ صحت کو چھوڑ رہا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپریل میں ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ بند کردی تھی اور ایک ماہ بعد کہا تھا کہ امریکا تنظیم کو چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انھوں نے ڈبلیو ایچ او پر کرونا وائرس کی وبا کو سنبھالنے کے معاملے میں چین کے حق میں متعصب قرار دیتے ہوئے اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔
مئی میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’ہم نے اصلاحات کی تفصیل بیان کی تھی لیکن انھوں نے اس پر عمل سے انکار کردیا۔ اس لیے ہم آج تعلقات ختم کر رہے ہیں۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کے قواعد کے مطابق کسی بھی ملک کو تنظیم چھوڑنے سے پہلے ایک سال کا نوٹس دینا ضروری ہے۔ اگر صدر ٹرمپ نومبر کے الیکشن میں ہار گئے تو پھر اگلے صدر کو اس بارے میں فیصلہ کرنا پڑے گا۔
امریکا کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ یہاں تقریباً 30 لاکھ کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ایک لاکھ 31 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی ماہرین صحت نے صدر کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے تمام بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عشروں سے جاری تعاون ختم ہو گیا ہے۔
انفیکشس ڈیزز سوسائٹی آف امریکا کے صدر تھامس فائل جونئر نے کہا کہ تنظیم کو چھوڑنے سے امریکا عالمی سطح پر وائرس کا مقابلہ کرنے کی کوششوں اور ویکسین اور دواؤں تک رسائی سے متعلق فیصلہ سازی سے باہر ہو جائے گا۔ ہم نہ صرف کرونا وائرس کے مقابلے میں غیر محفوظ ہو جائیں گے بلکہ عالمی صحت میں قائدانہ کردار بھی کھو بیٹھیں گے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر باب میننڈیز نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کو چھوڑنے سے امریکہ تنہا اور بیمار ہوجائے گا۔ کانگریس مین ایرک سویلویل نے کہا کہ یہ فیصلہ غیر ذمے دارانہ اور غیر دانش مندانہ ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ اور دوسرے ری پبلکن رہنما الزام لگاتے ہیں کہ چین نے جان بوجھ کر وبا کے خطرے درست نشاندہی نہیں کی اور یہ نہیں بتایا کہ وائرس انسانوں میں کیسے منتقل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے وبا کے آغاز پر چین کی غلط معلومات کو پھیلایا۔
امریکا 1948 میں قائم کیے گئے عالمی ادارہ صحت کا بانی رکن اور اسے سب سے زیادہ رقم فراہم کرنے والا ملک ہے۔