جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبوں کے خلاف جرمنی، فرانس، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کے دو طرفہ تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جرمنی، فرانس، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ نے اسرائیلی اور فلسطینی فریقین کے درمیان ’نتیجہ خیز مذاکرات‘ دوبارہ شروع کرانے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔ چاروں ممالک کے وزراء کے درمیان ویڈیو کانفرنس کے بعد جرمن وزارت خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ امن مذاکرات کے سلسلے میں ہر کوشش کی حمایت کی جائے گی۔
سات جولائی کو جاری کیے گئے اس مشترکہ اعلامیے کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائيل ميں ضم کرنے کا عمل عالمی قوانين کی خلاف ورزی ہوگا اور قیام امن کی کوششوں کو بھی متاثر کرے گا۔ یورپ کے ديگر کئی ممالک کی طرح ان چاروں رياستوں کے وزراء نے بھی فلسطینی علاقے غرب اردن کے کچھ حصے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی۔
اس بارے میں اسرائیل کا فوری رد عمل سامنے نہیں آیا لیکن ایک الگ بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے بتایا ہے کہ پیر کے روز بينجمن نیتن یاہو نے برطانوی ہم منصب بورس جانسن کو بتایا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ’حقیقت پسندانہ‘ امن منصوبے پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے اس منصوبے کی اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک سخت مخالفت کر رہے ہیں تاہم بنجمن نیتن یاہوکو اس منصوبے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ غزہ اور غرب اردن میں آبادکاری سے متعلق اسرائیل کے مجوزہ منصوبے کی امریکا کی جانب سے حتمی منظوری ابھی باقی ہے۔
ادھر فلسطینی حکام مغربی کنارے کو اپنی مستقبل کی ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں لہٰذا وہ اسرائیلی منصوبے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
قوی امکان ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو فی الحال غرب اردن میں محدود پیمانے پر یہودی آباد کاری کی اجازت ديں۔ ان کے نزدیک یہ ان کے وسیع تر منصوبے کا ایک علامتی آغاز ہو سکتا ہے، لیکن فلسطینیوں کے مطابق ایسا کوئی بھی اقدام خطے کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی شروعات ہوگی۔