مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری نوجوان برہان وانی کی آج چوتھی برسی منائی جارہی ہے جب کہ وادی میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔
برہان وانی کی برسی کے موقع پر بھارتی حکومت نے وادی کو ایک بار پھر پولیس چھاونی میں تبدیل کر دیا ہے جب کہ کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی تاحکم ثانی بند کر دی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری وادی میں گشت کر رہی ہے۔ برہان وانی ایک ہونہار طالب علم تھا، جس نے بھارتی فوجیوں کے مظالم کے خلاف صرف 15 سال کی عمر میں آزادی کی خاطر ہتھیار اٹھائے، 8 جولائی 2016 کو بھارتی فورسز کے ہاتھوں نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی آج برہان مظفر وانی کی برسی نے یادوں کے زخم تازہ کردیے ہیں، برہان وانی کی شہادت نے سات دہائیوں سے حق خودارادیت کیلئے لڑنے والے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نیا جوش پیدا کیا۔
برہان وانی شہید کی عمر 22 سال تھی جب 8 جولائی 2016 کو جنوبی مقبوضہ جموں کشمیرکے ایک گاؤں پر بھارتی فوجی درندوں نے ہلہ بول دیا۔ اس وقت برہان وانی اور ان کے دو ساتھی جس مکان میں تھے۔ اسے بم مار کر تباہ کر دیاگیا جس سے برہان وانی سمیت تینوں کشمیری نوجوان شہید ہوگئے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں وسیع پیمانے پر عوامی تحریک شروع ہوئی جسے دبانے کی سرکاری کاروائیوں میں کم از کم 100 افراد مارے گئےجبکہ ہزاروں گولیوں اور چھروں سے زخمی ہوگئے ۔
برہان وانی نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کوجگایا اور اس کوشش کے نتیجےمیں دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں نوجوان اس تحریک کاحصہ بن گئے، برہان وانی توچلا گیا لیکن اس نے اپنے خون سے جوشمع روشن کی، وہ آج بھی کشمیری نوجوانوں کو آزادی کی راہ دکھارہی ہے ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے اس عرصے میں عوامی احتجاج کی شدت میں زبردست اضافہ ہوا۔
نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ حریت پسندوں اور بھارتی فوج کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد گولیوں اور چھروں سے زخمی ہوگئے ہیں۔ احتجاجی لہر کے دوران کشمیر کے اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات بھی سرگرم ہوگئے اور کئی ماہ سے وہ بھارت مخالف احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت اکثر اوقات اسکولوں اور کالجوں کو بند رکھنے کا اعلان کرتی ہے۔
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔کشمیری نوجوان جو شدید احساس محرومی کا شکار ہیں وہ اب انڈیا کے خلاف علیحدگی کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں کُل آبادی کا 30 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت شدید غم و غصے اور ابہام کا شکار ہیں۔